شیخ اطہر
حق تو یہی ہے کہ انسان ہمیشہ روتا ہوا پیدا ہوتا ہے۔ ساری زندگی شکایتیں کرتا رہتا ہے۔ شکایتیں کرنے کے باوجود زندہ رہتا ہےاور پھرپچھتاتے ہوئے اس دنیا سے چلے جاتا ہے۔یہ دنیا عجائبات سے بھری پڑی ہے لیکن انسان سے بڑھ کراور عجوبہ اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ جو انسان خدا سے اپنا رشتہ رکھتا ہے، وہ مسرور رہتا ہے۔ سچا انسان امیر اور غریب کے درمیان فرق نہیں کرتا اور نہ زندگی میں کوئی ایسا کام کرتا ہے، جس سے انسانیت کا دامن داغدار ہو جائے۔ کیونکہ اﷲ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب عطا کیا، گویا اس دنیا میں اگر کوئی افضل مخلوق ہے تو وہ انسان ہے۔اس لیے کہ سب سے زیادہ قوت، سب سے زیادہ شعور، سب سے زیادہ سوچ، سب سے زیادہ عقل،سب سے زیادہ ہمت، سب سے زیادہ اچھی صورت اﷲ نے ایک انسان کو عطا کی ہے۔ تو پتہ چلا کہ درندوں، پرندوں، چرندوں اور دیگر مختلف جانوروں سے زیادہ ا ﷲ نے ایک انسان ہی کو اوصاف وکمالات میں بلند رکھا ہے۔
انسانیت کی پہچان یہی ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان کو دیکھ کر اپنے خالق یعنی ا ﷲ اوراُس کے محبوب پیغمبرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم یاد آئے۔ انسانیت کی پہچان یہ بھی ہے کہ انسان دوسروں کی خوشی پر خوش ہو اور دوسروں کو غم پر غمزدہ رہے ۔ انسانیت کی پہچان یہ بھی ہے کہ انسان دوسروں کو تکالیف، مصائب اور مشکلات میں اپنا تعاون پیش پیش رکھیں۔ تو پتہ چلا کہ ایک انسان کواپنی زندگی میں انسانیت کے تقاضے لازماً پورے کرنا چاہیے، تو اس کیلئے ایک انسان کو سب سے پہلے خدا و رسولؐ کو جاننے کے ساتھ ساتھ کفر و ایمان، حق و باطل، نیکی و بدیاور حرام و ہلال کو سمجھنا لازم ہے۔اور بحیثیت مسلمان قرآن کو سمجھنا ضروری ہے،تب وہ انسانیت کی اصل روح کو سمجھ پائے گا اور انسان ہونے کے ناطے انسانیت کےکمالات ، صفا ت، بلندی اور درجات سے با خبر ہو جائے گا۔ چنانچہ اصل انسان کی پہچان یہ ہے کہ انسان اس زندگی میں اصل علم ہی کی روشنی سے مختلف اندھیریوں سے نکل کر مختلف روشنیوں میں آجائے یعنی کفر ، باطل، حرام ، جھوٹ، نافرمانی، بے دینی، بے پردگی، ظلم، بے انصافی جیسی خرابیوں اور بُرائیوں سے باز رہےاور کسی صورت میں خدا رسولؐ کی ناراضگی کا باعث نہ بنے،حق اور سچ کے ساتھ اصل علم یعنی اسلام اور قرآن کی روشنی میں آجائے، تو پھر اس انسان کو دین و دنیا میںکامیابی حاصل ہوگی ،اور خدا و رسولؐ کی رضا و خوشنودی بھی حاصل ہو جائے گی۔
[email protected]