کشمیرمذہبی رواداری، روایات اور باہمی اعتماد کی سرزمین
اظہار خیال
احمد ایاز
کشمیر صرف برف پوش پہاڑوں، نیلگوں جھیلوں اور چنار کے سرخ پتوں کا نام نہیں۔ یہ ایک ایسی عظیم تہذیب کی علامت ہے جس نے صدیوں تک مختلف مذاہب، عقائد اور نظریات کو اپنے دامن میں سمیٹ کر محبت، رواداری اور بقائے باہمی کی درخشاں روایت قائم کی۔یہ سرزمین ہمیشہ اس حقیقت کی گواہ رہی ہے کہ انسان کی اصل پہچان اس کے عقیدے یا نام میں نہیں بلکہ کردار اور انسانیت میں ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا جس نے ایک کشمیری پنڈت ہردھے کول کو اسلامیہ اسکول راجوری کدل کی سربراہی عطا کی۔ یہ محض ایک انتظامی تقرری نہ تھی بلکہ اعتماد، محبت اور باہمی احترام کا زندہ استعارہ تھی۔ کشمیر کا دل ہمیشہ کشادہ رہا ہے اور یہی اس کی اصل پہچان ہے۔
روحانیت کے مشترکہ چراغ
کشمیر کی صوفی اور ریشی روایت نے اس وادی کو ایک ایسا روحانی رنگ بخشا جہاں مذہب کی دیواریں گر جاتی تھیں۔حضرت سلطان العارفین مخدوم صاحبؒ ہوں یا چرار شریف کے شیخ نورالدین نورانیؒ (نند ریشی) — یہ مزارات صرف مسلمانوں ہی کے نہیں بلکہ ہر کشمیری کے لیے سکون اور برکت کے مراکز تھے۔ یہاں پنڈت عقیدت سے چراغ جلاتے اور مسلمان مندروں میں جا کر دعائیں مانگتے۔ یہ مناظر اس بات کی دلیل تھے کہ وادی کی اصل عبادت انسان دوستی اور احترام تھی۔
غیر مسلم زائرین بھی بڑی عقیدت کے ساتھ مخدوم صاحبؒ، دستگیر صاحبؒ، خانقاہِ معلی، چرارِ شریف اور بابا ریشی جیسے خانقاہوں اور آستانوں پر حاضر ہوتے، نذرانے پیش کرتے اور برکت و دعاؤں کے طلبگار بنتے۔ یہ مظاہر اس گہری مذہبی ہم آہنگی کا ثبوت تھے جو کشمیر کو دنیا میں منفرد بناتے ہیں۔
تہواروں کی خوشبو
کشمیر کے تہوار کسی ایک برادری تک محدود نہ تھے۔ عید پر پنڈت خاندان اپنے مسلمان دوستوں کو مٹھائیاں بھیجتے اور ہیراتھ (شیوراتری) کے موقع پر مسلمان اپنے پنڈت بھائیوں کی دعوتوں میں شریک ہوتے۔ یہ محض رسمیں نہیں بلکہ دلوں کی گہری وابستگی کا اظہار تھیں۔ ہر جشن اور ہر مسکراہٹ اس دھرتی کی اجتماعی خوبصورتی کا آئینہ دار تھی۔
عقیدت کی سریلی زبان
موسیقی بھی اس ہم آہنگی کی جیتی جاگتی مثال رہی۔ مسلمان فنکار جب بھجن گاتے اور پنڈت گلوکار نعتیں سناتے تو مذہبی سرحدیں مٹ جاتیں۔ ہر آواز ایک ہی آسمان کی طرف بلند ہوتی اور سامعین اپنے اپنے عقیدے کے ساتھ ساتھ روحانی سرشاری میں ڈوب جاتے۔ یہ ہم آہنگی اسی سرزمین کا خاصہ تھی جہاں انسان کو صرف انسانیت کے پیمانے پر پرکھا جاتا تھا۔
صوفی ،ریشی روایت: وادی کا اصل سرمایہ
لعل دید کی شیوی فکر اور نند ریشیؒ کا صوفیانہ پیغام یوں ایک دوسرے میں مدغم ہوئے کہ کشمیری دل ہمیشہ اس ہم آہنگی کی گواہی دیتا رہا۔ ان بزرگوں نے سکھایا کہ عبادت کا مقصد دل کو وسیع اور کردار کو شفاف بنانا ہے۔ یہی پیغام کشمیر کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
1990 کی ہجرت: ایک المیہ اور سبق
افسوس کہ 1990 کی دہائی میں یہ ہم آہنگی شدید زخموں میں بدل گئی۔ کشمیری پنڈتوں کی جبری ہجرت نے صرف ایک برادری کو ہی نہیں بلکہ پوری وادی کی روح کو زخمی کر دیا۔ آج بھی سنسان مندر، خالی محلے اور اجڑے آنگن اس سانحے کی تلخ یاد دلاتے ہیں۔تاہم انہی دنوں کئی ایسے روشن واقعات بھی سامنے آئے جب مسلمانوں نے اپنے پنڈت پڑوسیوں کے گھروں اور مندروں کی حفاظت کی۔ یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ کشمیر کی اصل روح اب بھی زندہ ہے اور انسانیت کے چراغ بجھنے نہیں دیتی۔
کشمیر کا ابدی درس
کشمیر کی اصل پہچان فرقہ واریت یا تقسیم نہیں بلکہ محبت، بھائی چارہ اور بقائے باہمی ہے۔ یہ سرزمین ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ تنوع کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے۔
اگر ہم اپنے اس ورثے کو پھر سے زندہ کر سکیں تو کشمیر ایک بار پھر امن، احترام اور بھائی چارے کی وہی وادی بن سکتا ہے جسے دنیا ’’جنتِ ارضی‘‘ کے نام سے یاد کرتی تھی۔
کشمیر کا ابدی پیغام یہی ہے:’’مذہب کا جوہر انسانیت ہے اور انسانیت ہی اس وادی کا اصل مقصد ہے۔‘‘
@[email protected]