بلا شبہ سب سے اچھے انسان وہ ہیںجو انسانیت کے اصولوں کو وسعت دیں،خود میانہ روی اختیا ر کریںاور دوسروں کو فائدہ پہونچائیں، اپنا مال مناسب طریقے پر استعمال کریں ،کمزوروں کی مدد کریں اورگمراہوں کو صحیح راستہ دکھائیں۔ایسے انسان کسی کے محتاج نہیں رہتے ہیںاور ہر بَلا سے محفوظ رہتے ہیں۔کیونکہ ایسے انسان ہر کسی سے پیار کرتے ہیں،بڑوں کے ساتھ عزت اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ہیں،ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں اور غریب کا سہارا بنتے ہیں ،گویا انہی کاموں کا دوسرا نام انسانیت ہے اس کے برعکس جو انسان ،انسانیت کے حدود کو پھلانگ دیتا ہے ،ہر معاملے میں من مانیاں کرتا رہتا ہے،دوسروں کو تکلیف پہنچاتا ہےاور اچھے کاموں کے لئے آگے نہیں بڑھتا ہے،وہ گمراہ کہلاتا ہے اوراُسے بالآخر اپنے کرموںکا نقصان خود ہی اٹھانا پڑتاہے۔ظاہر ہےکہ قومیں انسانیت کے شہری ہیںاورانسان ہی انسانیت کا مظہر ہے،جس میںدنیا بھر کے تمام معاشروں میں موجودتمام افراد شامل ہیں، جو انسان کہلاتے ہیں،جن کی زیادہ تر تعدادانسانیت کو داغدا ر بناتےہیں ۔
ہاں! انسانیت ،انسان کےجسم کی ساخت کا نام نہیں بلکہ مزاج کی اُن خوبیوں کا نام ہےجو محض انسان کی انفرادی زندگی کیلئے ہی نہیں بلکہ اپنے اہل و عیا ل ،خاندان،احباب و اقارب اور پورے معاشرے کیلئے ضروری ہوتی ہے۔انسان محض اُس ایک پتلے کو ہی نہیں کہا جاسکتا، جس کے اندر جان باقی ہو، بلکہ انسان اس کو کہا جاسکتا، جس کے اندر انسانیت جاگزین ہو۔اس لئے بحیثیت انسان ہمارے معاشرے میں موجود ہر بالغ فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے کہ انسانیت کے ناطے اُسے کون سے کام انجام دینے لازمی ہیں،جن سے معاشرہ کا فلاح و بھلا ہوسکے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت ہمارا معاشرہ مختلف مسائل سے دوچار ہے ۔ ہر قسم کی خرابیوں اور بُرائیوں سے لت پت اور بے جا رسومات میں بھی گِرا ہوا ہے۔جبکہ بدعنوانی،بے ایمانی ،دھوکہ دہی ،ناجائز منافع خوری،نقلی اور غیر معیاری چیزوں کےکاروبارکا سلسلہ بھی جاری ہے۔جس کے نتیجے میں معاشرے کے نوجوان نسل کی ایک خاصی تعداد منشیات کے استعمال کی بھی عادی ہوچکی ہے۔
اگرچہ ہرذی ہوش فرد معاشرے میں موجود اِن بُرائیوں اور خرابیوں کا اعتراف کرتا رہتا ہے لیکن احساس ِ ذمہ داری کی کمی کی وجہ سے وہ کوئی انفرادی یا اجتماعی طور پر ایسا کوئی مثبت قدم اُٹھانے کی پہل نہیں کرتا ہے ،جس سے ان بُرائیوں و خرابیوں میں کمی لائی جاسکتی۔حالانکہ ہمارے معاشرے میں امیر، غریب، اچھے بُرے اور ہر مکتب فکر کے لوگ موجود ہیں،جنہوں نے مختلف اوقات میں اپنی محنت،صبر اور استقلال سے معاشرے کی ترقی ، انصاف ، امن ، مذہبی روا داری اور سیاسی آزادی کیلئے اپنا بہترکردار اداکیا ہے۔لیکن تعجب ہے کہ آج وہ بھی اپنے اس معاشرے میں موجود بہت ساری بُرائیوں اور خرابیوں کے خاتمہ کے لئے کوئی موثر رول ادا نہیں کررہے ہیں۔شائد اس لئے کہ آج کا انسان جب زیادہ ترقی کرتا ہے اور کامیابیوں کے عروج پر پہنچ جاتا ہے تو وہ دین ودنیا کو بھول جاتا ہے، پھراُس میں انسانیت کی قدریں معدوم پڑتی ہیںاور بد خواہی بڑھ جاتی ہے،جس کے سبب اُس میں اچھے اور بُرے ، صحیح اور غلط ، سچ اور جھوٹ ، ایمانداری اور بے ایمانی ، غریبوں، یتیموں ، بیوائوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی ہے،یہاں تک کہ اُسے اپنی اولاد، اپنے ماں باپ اور احباب و اقارب کی بھی کوئی فکر نہیں رہتی ہے۔ دیکھنے میں یہی آرہا ہےکہ اکثر انسان جب زیادہ پیسہ کماتے ہیں تو وہ عام لوگوں کے درمیان رہنے اور ان سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتےاور اپنے ہی زعم میں رہتے ہیں۔ جبکہ بہت کم ایسے لوگ ہیںجو مشکلات میں بھی اپنی عزت اور معاشرے کیلئے اپنا کردار ہر وقت کیلئے قائم رکھتے ہیں۔حالانکہ انسان کو قدرت نے بے شمار نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے،جنہیں بروئے کار لاکر وہ ایسے کارنامے انجام دے سکتا ہے ،جو انسانیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے ہم انسانیت کے اصولوں کو وسعت دیںاور انسانیت کے راستے پر چل کر اپنے اندر دوسروں کے دکھوں کو اپنا دُکھ اور دوسروں کی خوشیوں کو اپنی خوشی سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں،تبھی ہم اپنے معاشرے کو ہر بُرائی اور خرابی سے صاف و پاک کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔