ہارون ابن رشید
زندگی اس لئے بخشی گئی ہے کہ اس کو اچھے کاموں کے لئے استعمال کریں اور دوسروں کیلئے معاون و مددگار بنے۔ لیکن انسان نے اپنی زندگی کو آسان سمجھ لیاہے اور موجودہ فیشن اور آرائش و زیبائش نے اس کے فطری عوامل تبدیل کر دئے ہیں اور اب زندگی، دنیا مفاد پرستوں ،رشوت خوروں اور خود غرضوں کیلئے جنت بنی ہوئی ہے جبکہ شریفوں کیلئے جہنم سے کم نہیں۔ اکثر لوگوں کو مرنے کے بعد کفن و دفن کیلئے اپنے بھی موجود نہیں ہوتے ہیں کیونکہ اُنکےچشم و چراغ دیارِ غیر میں دولت کمانے میں محو و مشغول ہوتے ہیں، وہ اپنے والدین اور اپنوں کے بغیر غیروں کے ساتھ اپنی عمر گنوا دیتے ہیں اور ان کے والدین ان پر فخر بھی کرتے ہیں ۔لیکن حقیقت میں یہ خسارے کا سودا ہے کیونکہ ایک مخصوص مدت کیلئے وہ اپنوں کے پاس رہنے سے قاصر رہتے ہیں۔ زندگی خوشگوار گزارتے ہیں لیکن وہ زندگی ہی کیا ،جس میں اپنوں کا دکھ و درد شامل نہ ہو۔ خوشیوں میں رونق محفل نہ ہو۔ اپنا بسانے والے دوسروں کو بسانے کی فکر میں نہ ہو تو وہ زندگی حیوانوں سے بھی بدتر ہے۔ یہاں شریف زادوں کو دقیانوسی اور نان ماڈرن کہہ کر پکارا جاتا ہے، لیکن انسان کی حقیقت اسی میں مضمر ہے۔ کیوں کہ انسان کو دنیائے انسانیت میں اس لئے خود مختار بنا کر لایا گیا ہے کہ وہ دوسروں کا مسیحا بن کر جیئے ۔ لیکن افسوس! یہ حضرت انسان اپنی خودغرضی اور لالچ کو پورا کرنے کیلئے خون کا پیاسا بنا ہوا ہے۔ جن لوگوں کے پاس شرافت اور ندامت ہوتی ہے ،وہ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی فکر مند رہتے ہیں۔ لیکن اس زمانے کے لوگ اُن کو ہی الٹا سمجھتے ہیں اور اُن پر طعنے کستے رہتے ہیں۔ جو لوگ سماج کے پسماندہ لوگوں کے محسن اور مفلوک الحال کے مدد گار ہوتے ہیں ،ان کے متعلق سماج میں بدگمانیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ حالانکہ ان کی نیت خلوص پر مبنی ہوتی ہے اور وہ دوسروں کی معاونت کیلئے سرگرداں ہوتے ہیں ۔ جبکہ اُن لوگوں کو عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے جو لوگوں کو اپنی شعبدہ بازیوں سے اپنا گرویدہ بناتے ہیں۔ حالانکہ ان کی نیت میں ہمیشہ کھوٹ ہوتی ہے لیکن نام نہاد ترقی یافتہ دور میں ان کی نیت کو نہیں بلکہ ان کے ٹاٹھ باٹھ کو دیکھا جاتا ہے اور اسی اعتبار سے ان کی عزت کی جاتی ہے۔ اُن لوگوں کو اہمیت نہیں دی جاتی جو لوگوں کے ہمدرد اور مسیحا ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر یہ کہ موجودہ دور کے فیشن ،رسم و رواج اور بے راہ روی و بے حیائی نے انسانیت کو نیلام کر دیا ہے اور انسانیت میں حیوانیت پیوست ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شرفاء کی عزت کی جائے جبکہ چاپلوسوں اور خود غرضوں سے دور رہا جائے تاکہ سماج ایک بار پھر پڑی پر آسکے۔ ورنہ ایسا طوفان امڈ آئے گا جس کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔