عصر ِ حاضر کے اس جدید ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دور میںبھلے ہی ہم اپنے آپ کو مہذب اور باشعور معاشروں میں شمار کریںلیکن سچ تو یہی ہے کہ ہمارے موجودہ معاشرے ماضی کے معاشروں سے بھی گئے گذرےہو گئے ہیںبلکہ اگر یوں کہا جائے کہ نام نہاد ترقی یافتہ معاشروں کی آڑ میںہم جہالت کے دور میں جا پہنچے ہیں تو شائدیہ بھی غلط نہیں ہوگا۔کیونکہ دنیا بھر میںاس وقت جتنے بھی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک آباد ہیں،اُن کے تقریباً سبھی معاشروں میں انسان کے ہاتھوں ،انسانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے ،اُس سے نہ صرف ماضی کے انسانی معاشروں کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں بلکہ تاریخی کتب میں درج دورِ جہالت کے معاشروں کے کالے کرتوتوں کے حقائق بھی عیاں ہوجاتے ہیں۔ اس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں جہاں بھی نظر دوڑائی جائےتو تباہی ،بربادی ،بدکرداری،بدعنوانی ،عصمت دری ،بے حیائی اور دوسری تمام بُرائیاں ہرطرف دکھائی دے رہی ہیں۔جس سے انسان لرزہ بر اندام رہتا ہے۔بھلے ہی ان ممالک کے معاشروں کے افراد اپنے معاشروں کو آزاد تصور کریںلیکن در حقیقت ہرمعاشرے کا ایک طبقہ دوسرے طبقے کوغلام سمجھتاہے۔جس کے نتیجے میںانسانوں کے ہاتھوں انسانیت کا نام و نشان مٹتا جارہا ہے۔اگر ہم اپنے ملک کی ہی بات کریںتو ہر سال لوگ ملک کی یوم آزادی کا جشن مناتے رہتے ہیںاور تمام مذہبی تہواروں کا بھی جوش و خروش کے ساتھ اہتمام کرتے رہتے ہیں۔حکومتیں بنتی اور بدلتی رہتی ہیںاور حکمران بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیںلیکن ا س سب کچھ کے باوجود انسان ، نہ صرف انسانیت سے کم تر ہوتا جارہا ہے بلکہ حیوان سے بھی بدتر ہورہا ہے۔ انسان کے ہاتھوں انسان کے ساتھ ایسے مظالم اور کالے کرتوت ہوتے رہتے ہیں کہ نہ صرف انسانیت شرمسار ہورہی ہے بلکہ آزاد ملک کے نام پر دھبہ لگ جاتا ہےاور ملک کے انسانی معاشروںکی کارکردگی ٹھپہ پڑتا ہے۔جس کے نتیجے میں جہاں حکمرانوں کی حکمرانی باعث ِ زوال بن جاتی ہےوہیں انتظامیہ کی کارکردگی بھی سوال کا نشانہ بن جاتی ہے۔اس ملک میں جہاں ایک طرف عورت کو دیوی کا روپ مانا جاتاہے وہیں دوسری طرف اُسے بے جان کھلونے سے بھی کم ترسمجھا جاتا ہے۔حالیہ ایام میںبالجبر عصمت ریزی اور قتل کے جو لرزہ خیز وارداتیںسامنے آئی ہیں،اُن سے سے لوگوں کے دِل پاش پاش ہوئے ہیں،پورے ملک میںلوگ سرپا احتجاج رہے اور انصاف کی صدائیں گونجتی رہیں ، جس پر ملک کے حکمرانوں نے بھی تشویش ناک کا اظہار کرتے ہوئے روایتی طریقے پر تما م تر اقدامات اٹھانے کے احکام جاری کردئیےہیں،جیسے کہ ایسے واقعات رونما ہونے کے موقعوں پر وہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ بغور جائزہ لیا جائے تو خواتین کے تحفظ کے لئے بار بارحکومتی اعلانات واحکامات کے بعد بھی شہر شہر، گاؤں گاؤں میں خواتین کی اجتماعی عصمت دری اورقتل کے گھناؤنے واردات دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ سرکاری حساب اور اندازے کے مطابق ایک دن میں سو سے زائد عورتوں کا ریپ ہوتا رہا ہے۔یہ تو وہ معاملات ہیں جو پولیس اور قانونی ادراوں کے سامنے درج ہوتے ہیں، اب ان معاملات کا کیا ،جو درج نہیں ہوئے؟ جو اپنی عزت بچانے کے لیے معاملات چھپاتے رہے۔ تو اس سرکاری تخمینہ سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے ملک میں سال میں کتنے گینگ ریپ ہوتے ہوں گے؟جبکہ مبینہ طور پر ایسے بے شمار جنسی ہراسانی کرنے والے ملزموں پر کسی ٹھوس اور سخت قانونی چارہ جوئی کرنے کے بجائے انہیں قانونی تحفظات حاصل ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایسے درندوں کی جرأت وہمت بڑھ گئی ہے۔اس لئے یہ طے ہے کہ جب تک ایسے انسانیت سوز اور دل دہلانے والے واقعات میں ملوث مجرموں کے خلاف حکومت اور ارباب حکومت ایسےانتہائی سخت قانونی قدم نہیں اٹھائیں،جس سے بدن کانپنے لگے، تب تک یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے گا۔ حالیہ دنوں میں گینگ ریپ کے جووارداتیں رونما ہوئی ہیں۔ جن کی تفصیل اگر بیان کی جائے تو آنکھیں اشکبار نہیں لہو بار ہوجائیں گے۔ آنسوؤں کے بدلے خون کے قطرے آنکھوں سے جاری ہوں گے۔ مظفر نگر میں ایک چودہ سالہ دلت بچی کو اس کے والدین کے سامنے سے اغوا کرکے اس کے ساتھ انسان نما درندوں نےجنسی ہراسانی کے بعد موت کے گھاٹ اُتار دیا اور پھر اس مردہ بچی کے نازک بدن کے ساتھ جو شرارت کی گئی،اس سے پوری انسانیت شرمسار ہے۔