Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

انسانیت جسم کا نہیں مزاج کی خوبیوں کا نام | مادیت نےانسان کو کمالِ زندگی کے تصّور سے دور کردیا فہم وفراست

Towseef
Last updated: December 30, 2024 10:08 pm
Towseef
Share
14 Min Read
SHARE

تانترےعبداللطیف

کائنات ہست و بود سے متعلق تمام تر علوم سے یہ بات اظہر من شمس ہوتی ہے کہ انسان تمام مخلوق کے مقابلے میں بہت سارے منفرد صفات و کمالات کی بنیاد پر ہی اشرف المخلوقات کے درجے اُتم پر فائز ہے۔ حیوان ناطق ہونے کی صفت ہو یا عقل شعور کا کمال ، فکر و تحقیق کی صفت ہو یا تخلیق و تجدید کاکمال، صبر استقامت کی صفت ہو یا فتح و نصرت کا کمال، حسن و جمال کی صفت ہو یا حلم و انکساری کا کمال، اخلاق و اقدار کی صفت ہو یا جاہ و جلال کا کمال، اخوت و ہمدردی کی صفت ہو یا معاشی و معاشرتی کمال، نیاز مندی اور عبدیت کی صفت ہو یا محصول عدل واحسان کا کمال ، حصول علم و حکمت کی صفت ہو یا معرفت و حقیقت کا کمال، الغرض انسان بہت سارے امتیازی اوصاف کا مالک ہے اور ودیعت شدہ اُنس ومحبت کی صفتِ حمیدہ انسان کو سب سے زیادہ ممتاز بناتی ہے۔ اہل لغت میں انسان کے لفظِ اشتقاق پر تضاد پایا جاتا ہے ۔ چند اہل لغت لفظ انسان کا’’انسا‘‘ سے مشتق مانتے ہیں جس کا معنی انس ومحبت ہے اور چند دوسرے اہل لغت لفظ انسان کو’’نسیا‘‘ سے مشتق مانتے ہیں جس کا معنی ہے بھولنا۔ اہل علم نے ان دونوں نقطہ نظر میں فصل کی جگہ وصل سے کام لینے پر زور دیا ہے اور اس صورت میں لفظ انسان کا معنی کسی کے انس محبت میں خود کو بھول جانا بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے اندر جس کسی شے کے لیے بھی محبت پیدا ہوتی ہے، اس کے لیے وقت آنے پر وہ اپنی جان عزیز کی قربانی دینے پر بھی آمادہ ہوتا ہے ۔ یہ جذبۂ محبت ہی ہوتا ہے جس کے لیے بحیثیت والدین انسان اپنی تمام تر خواہشات کا گلا گھونٹنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، یہ جذبۂ محبت ہی ہوتا ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے وطن کی خاطر مرمٹنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، یہ جذبۂ محبت ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان کتب خانوں اور مدرسوں میں حصولی علم کی خاطر گمنامی کے ماہ و سال گزارنے پر آمادہ ہوتا ہے اور یہ جذبۂ محبت ہی ہوتا ہے جس سے انسان اہل و عیال کی خاطر اپنے دیس سے کوسوں دور پردیس میں محنت و مشقت پر آمادہ ہوتا ہے اور اس سب سے بڑھ کر یہ جذبۂ محبت انسان کو دنیا داری نبھانے میں درپیش مشکلات سے پیدا ہونے والی نا امیدی میں امید کی کرن بن کر زندگی جینے کا سلیقہ اور حوصلہ مہیا کرتا ہے۔ تاہم قابل فکر بات یہ ہے کہ دورجدید میں مادی آسائشوں کی حصولیابیوں کے پیچھے لگا ہوا انسان اپنے اوصافِ حمیدہ کی اور بے توجہی دکھا کر کمال زندگی کا تصور ہی بھول بیٹھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے عشق وفا کے بے مثال قصے موجودہ دور میں شاز ونادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اور تو اور اب اس پاک رشتہ محبت کو ہی ڈھال بنا کر سب سے زیادہ ناپاک عزائم کی انجام دہی سے بھی لوگ دریغ نہیں کرتے۔ کسی سے سفارش کی خاطر، کسی سے مالی فیض یابی کی خاطر، کسی سے اپنے حق میں فیصلہ کروانے کی خاطر، کسی سے پیشے میں ترقی کی خاطر، کسی سے تجارتی فائدے کی خاطر، کسی سے سیاسی بالادستی کی خاطر ، الغرض تمام تر مادی حصولیابیوں کی خاطر آج کا انسان اُنس و محبت کا جھوٹا ڈھونگ رچانے کو ترجیحِ اول دیتا ہے۔ اس حقیقت حال کی ایک اور اہم وجہ انسان کا اپنے اس صفت حمیدہ یعنی انس محبت کےمرکز و محور کے لئے حقیقی نہیں بلکہ مفروضی اور سُفلی داعیات کا چناو ہے۔ اگر اُنس و محبت کے لیے آپ کا انتخاب ہی حقیر ہے تو اس محبت کی بار آوری بھی حقیر نتائج پر ہی منتج ہوگی۔اہل مغرب نے جب اپنے ساتھ ہو رہے استحصال کے خلاف صف آرائی کے دوران مذہبی اداروں کو اس ظلم و زیادتی میں ملوث پایا تو انہوں نے اس استحصالی نظام کے خاتمے کے بعد جس نظامِ نَو کو تشکیل دیا، اس میں مذہبی اقدار کو بالائی طاق رکھ کر سُفلی داعیات اور جذبات کی حصولیابیوں کا نام آزادئ افکار رکھا گیا۔ مذہب بیزاری پر مشتمل اس نظام کو مغرب میں صنعتی انقلاب اور سائنسی ایجادات سے اور زیادہ ترقی ملتی گئی اور دور جدید میں یہ نو وارد نظام اور زیادہ مستحکم ہوتا گیا۔ استحکام پا چکا یہ نظام اب پوری دنیا پر مسلط ہو رہا ہے اور اس نظام کے نفاذ و تشہیر کا کام ایک منظم طریقہ کار سے جاری و ساری ہے۔ چونکہ اہلِ دانش کے مطابق مذہب بیزاری پر قائم تمام نظریات طاغوتی اور باطل ہی گردانے جاتے ہیں لہٰذا اس حقیقت کو چُھپانے کے لیے مغرب کسی نظریہ کے اظہار کے لیے ایسے الفاظ اختیار کرتا آیا ہے جو لوگوں میں اچھے معنوں میں استعمال ہو اور لوگوں میں مانوس ہو جائیں یعنی لفظ کی ذاتی کشش اس نظریے کو لاشعوری طور پر لوگوں کے دل میں نقش کرتی چلی جائے تاکہ عام نظر رکھنے والے لوگ حق و باطل میں فرق کو واضح نہ کر سکیں۔

اُنس و محبت کی صفت حمیدہ کو بھی آج کے طاغوتی اور باطل نظریات سے ہم آہنگ بنانے کے لئے ایسے ایسے نام رکھے گئے ہیں جس سے اس کی حقیقت موجودہ دور کی نظروں سے اوجل کر دی گئی ہے۔ ہماری نئی نسلوں کے دل و اذہان میں پیار و محبت سے متعلق تخیل صرف اور صرف حصولِ شہوانی خواہشات تک محدود ہوتا جا رہا ہے، ان کے لیے اُنس و محبت کے اظہار، نوعیت اور نوع کی وسعتوں سے متعلق علم و معرفت رکھنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔ وہ ماں باپ، بہن بھائی اور اُستاد واکابر سے ملنے والی محبت کو ان کا فرض مان کر خود کو ان سے محبت کرنے سے بریُ الذمہ مانتے ہیں، وہ کردار ، مقصد، اہداف ، علم و فہم جیسے افکار کی محبت کے دائرے میں شمولیت کے قائل ہی نہیں، وہ محبت میں ہجر و فراق پر صبر و استقامت یا اِیثار و قربانی سے بالکل نا آشنا ہیں، وہ اظہار محبت میں شرم و حیا کو بالائی طاق رکھ کر غیر شائستہ طریقہ کار اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس سب کی وجہ یہ ہے کہ ان کی آزادئ افکار نعرے کی صورت میں یہ ذہن سازی ہوئی ہے کہ پیار اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے ،چاہے اس محبت کا مقصد تکمیلِ شہوانی خواہشات ہی کیوں نہ ہو۔

ایسے حالات میں جب پوری دنیا لذت رسانی کو مقصد حیات تسلیم کر چکی ہو تربیت پذِیر نسلوں سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر انسان بالعموم اور درد دل رکھنے والے صاحب اقتدار بالخصوص دین بیزاری پر مبنی طاغوتی اور باطل نظریات کے منفی اثرات سے آنے والی نسلوں کو بچانے کی خاطر روایتی تربیتی اسلوب میں درکار ترامیم کا بندوبست کریں۔ زیر بحث موضوع کے اعتبار سے بھی ہمیں اسی ترمیمی اسلوب تربیت کی اشد ضرورت ہے ۔ موجودہ دور میں جس انداز میں ذرا ابلاغ ، سوشل میڈیا اور دیگر سائنسی و تدریسی تغیرات سے فحاشی اور عُریانی جیسے بد افعال کامحبت جیسے پاک رشتے سے نسبت و تعلق پیدا کیا جا رہا ہے، اسی انداز میں تربیت پذیر نسلوں کی تربیت کے لیے موثر تربیت رسانی کا انتظام لازمی ہے۔ بچوں سے جن امور پر تربیت سازی پر مامور لوگ اب تک بات کرنا کار ممنوع سمجھتے تھے، انہیں متذکرہ ترمیمی اسلوبِ تربیت کے تناظر میں اقدار کا پاس و لحاظ رکھ کر ایسے امور پر بات کرنے کا نصاب اپنا نا ہوگا۔ انہیں انس محبت کے حقیقی معارف سمجھانے کے لیے بچوں سے محبت کے لیے استعمال شدہ جالی مفروضات کی نشاندہی کر کے ان کی تردید کرنی ہوگی، محبت اور فریفتگی کا فرق جو نسل نو کے اذہان سے اوجھل ہے اور جس کی وجہ سے وہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، واضح کرنا ہوگا۔ اس مسئلے میں والدین کا بالغ نظری سے کام لینا نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ بچوں کی تربیت کے خصوصی ذمہ دار ہونے کے ناطے وہی بچوں کو محبت کے حقیقت پسندانہ اقدار سے آراستہ کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں بچوں پر سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، سکول اور اڑوس پڑوس سے پڑنے والے اثرات کو بانپتے ہوئے بروقت تدارک کی سبیل بن کر تیار رہنا چاہیے۔ محبت کے نام پر حرام رشتوں کی پذیرائی والے معاشرے میں اگر والدین ان معاملات سے متعلق دور بھاگتے رہیں گے تو بیرونی اثرات سے ان کے بچے خود بخود رائج نہج کے بھینٹ چڑھ جائیں گے ۔ حالانکہ ایسے حساس معاملات میں بروقت رہنمائی بچوں کو ایامِ بلوغیت میں درپیش آنے والے مسائل سے نمٹنے میں بھی آسانی پیدا کرتی ہے اور بالغ زندگی کے اوائل میں بُرے اعمال کے ارتکاب سے بچ کر وہ پاکیزہ آغازِ زندگی کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہی والدین کا صالحہ معاشرہ تعمیر کرنے میں ان کا فریضۂ خاص ادا ہوجاتا ہے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو معاشرتی بگاڑ کا سب سے اہم ذمہ دار اُنکو ٹھہرانا جائز ہوگا۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق معرفتِ حق اُنس محبت سے ہی مشروط ہے، یہی وجہ ہے کہ صفات الہی میں شامل اس صفت خاص کو اپنانے کا حکم اللہ نے اپنے بندوں کو بھی بار بار دیا ہے اسلام نے محبت کا جو فطری اسلوب پیش کیا ہے۔ اس کی رُو سے حقیقی اور دائمی محبت صرف اللہ کی محبت سے میسر آتی ہے ۔ جہاں مجازی محبت میں مُحب اپنے محبوب کو بِلاشرکتِ غیرے اپنی ملکیت میں رکھنا چاہتا ہے، وہی حقیقی محبت میں مُحب سارے جہاں کو اپنی محبت میں نہ صرف شریک کرنا چاہتا ہے بلکہ گرفتار دیکھنا چاہتا ہے، جہاں مجازی محبت میں مُحب اپنے محبوب سے کسی اور کی محبت و تعلق برداشت نہیں کرتاوہی حقیقی محبت کے باب میں مُحب ہر دوسرے شخص کو اپنے محبوب سے محبت کرنے کی دعوت بھی دیتا ہے اور ترغیب بھی، جہاں مجازی محبت میں محب اپنے رقیبوں کو دیکھنا ہی نہیں چاہتا وہی حقیقی محبت میں محب اپنے محبوب کے دیگر عاشقوں کو دیکھ کر فرحت و راحت محسوس کرتا ۔ انہی وجوہات کی بنا پر ہمیں آنے والی نسلوں کو یہ تربیت دیکر سمجھانا ہوگاکہ محبت حقیقت میں لطافت تھی ،مگر مجاز میں آکر کسی حد تک کثافت بن گئی ہے، محبت حقیقت میں روشنی تھی لیکن مجازی تعلق کی رو سے کئی وجوہ سے تاریکی بن گئی ہے، محبت حقیقت میں خیر تھی لیکن مجازی تعلق میں کئی جہتوں سے شر ہو گئی ہے، محبت حقیقت میں رحمت تھی لیکن مجازی تعلق میں کئی نسبتوں سے زحمت بن گئی ہے، محبت حقیقت میں بلندی تھی لیکن مجازی تعلق میں آکر کئی زائیوں سے پستی بن گئی ہے، محبت حقیقت میں راحت تھی مگر مجازی تعلق میں کئی پہلوؤں میں اذیت بن گئی ہے ، محبت حقیقت میں عزت و کرامت تھی مگر اب مجازی تعلق میں کئی رویوں کے باعث ذلت و خجالت بن گئی ہے۔
(رابطہ۔7006174615)
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
گانٹہ مولہ بارہمولہ میں ایل جے ایچ پی نہر سے تیسرے شخص کی نعش بھی برآمد، علاقہ ماتم کناں
تازہ ترین
وادی کشمیر میں شدید بارشوں کی پیشگوئی، انتظامیہ کی جانب سے ہنگامی موسمی ایڈوائزری جاری
تازہ ترین
جموں کشمیر کا ریاستی درجہ مناسب وقت پر بحال کیا جائے گا ، مرکز اس کیلئے وعدہ بند :منوج سنہا
برصغیر
وزیر اعلیٰ نےآج اُس بے بسی کا تجربہ کیا جس کا روزانہ ہر کشمیری کو سامنا کرنا پڑتا ہے: میرواعظ
تازہ ترین

Related

کالممضامین

چین ،پاکستان سارک کا متبادل پیش کرنے کے خواہاں ندائے حق

July 13, 2025
کالممضامین

معاشرے کی بے حسی اور منشیات کا پھیلاؤ! خودغرضی اور مسلسل خاموشی ہمارے مستقبل کے لئے تباہ کُن

July 13, 2025
کالممضامین

فاضل شفیع کاافسانوی مجموعہ ’’گردِشبِ خیال‘‘ تبصرہ

July 11, 2025
کالممضامین

’’حسن تغزل‘‘ کا حسین شاعر سید خورشید کاظمی مختصر خاکہ

July 11, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?