یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب بھی انسانی معاشرے میںایمان و ایقان، زریں اصول، اونچے آدرش، صالح نظریات،امانت داری ، دیانت داری، عدل وانصاف کو طاقِ نسیاں کی زینت بنا یاگیا تو ایسے کم نصیب معاشرے میںہمیشہ خلفشاری ماحول پروان چڑھتا ہے ،فضا اس قدر مکدر ہو جاتی ہے جیسے انسان کسی وحشی درندے کانام ہو ، چہارسُو بداخلاقی کی گرج چمک معمول بن جاتی ہے ، انسان بیزاری کی گھنگھور گھٹائیں اطراف وجوانب میںچلتی ہیں، ہمدردی ، محبت ، خلوص، ایثار بے معنی الفاظ کا گورکھ دھندا بن جاتاہے۔ اس گھٹن بھرے ماحول میں ایک حسا س دل اور صالح فکر انسان سانس لینے کے لیے تڑپتا ہے ، کیفیت یہ ہو جاتی ہے جیسے وہ قفس میں بند پرندہ ہوجو فضائے بسیط میں اُڑنے کی تمنا رکھتا ہو لیکن اُس کی یہ آرزو بر آنا کسی بے آب وگیا دشت وصحرا میںجوئے شیر لانا ہو،اس کے لئے حیوانی سما ج میں رہتے ہوئے زندگی کا سکون واطمینان حاصل ہونا دیوانے کی بڑ ہوجاتی ہے۔ایک غیر مرئی خوف ،ڈر، اندیشہ ہائے دوردراز ،بے کسی ،بے بسی اور دہشت میں یہ انسان اندر ہی اندر سہما سہما رہتا ہے۔رات کی تاریکی اپنی جگہ، دن بھی اس کے واسطے جیسے شبِ تار کی طرح ظلمت خیز ہو جاتا ہے۔ اس کی دنیا میں پرندوں کی چہچہاہٹ جیسے قصہ ٔ پارینہ ہو، بازار چہل پہل سے عاری ہوں، گھر ویرانہ محسوس ہو کہ افغانستان کے توراا بورا سے زیادہ کھنڈر دکھائی دے۔ انسانیت گم گشتہ ہونے سے اس باہوش انسانوں کویہ انمول چیز کھونے کا غم اندر ہی اندر کھائے جاتاہے۔ ہر چہرے پہ اُسے افسردگی چھائی نظر آتی ہے۔ وہ بے بسی کی تصویر بناپژمردہ نظروں سے چہروں کو تکتا ہے مگر نہ کہیں غم کا مدوا ہو تا ہے نہ دردکادرماں ملتا۔ ایسی دنیا میں یہ آدم زاد کیا کریں۔۔؟ میری یہ باتیں مفروضے پر مبنی کوئی داستان گوئی نہیں،دیومالائی قصہ کہانیوں سے بھی ان کا دور کا واسطہ نہیں۔ یہ مشاہدہ سچائی پر مبنی تجربوں پر اُستوار ہے۔ ہاں ، ا ن چشم کشا مناظر کا مشاہدہ کرنا ہر کس و ناکس کے لیے ممکن نہیں ماسوائے ان کے جنہیں چشم ِ بینا کی نعمت عظمیٰ سے مالک ارض و سماء نے سرفراز کیا ہو۔ جذبۂ دروں کی تپش جن کے دل میں موجزن ہو۔غیر ت و حمیت جن کے رگ و پے میں پیوست ہو۔ حالات اور واقعات کے مد وجزر پر جن کی عمیق نظر ہو۔ جو اپنے ذاتی مفادات کے گرد طواف کرنے کی خود غرضی سے بالاتر ہوں۔ اُمت کے علاوہ پورے عالم ِانسانیت کی بھلائی کا جذبہ جن کی نس نس میں سمایا ہو۔وائے ہماری حرماں نصیبی، ہائے ہماری تباہی۔۔!! ان اوصاف جلیلہ سے متصف رجال ِکار اب نایاب نہ سہی مگرکم یاب ضرور ہیں ۔!
اس گھمبیر صورت حال کی جان گداز کیفیت کا تصور کر یئے تو لوحِ ذہن پر بے ساختہ پیر رومی ؒ کی تصویر ُابھر آتی ہے ، وہ دن کے اُجالے میں ہاتھ میں چراغ لیے انسان۔۔۔۔ گوشت پوست والا انسان نہیں قلب وجگر والا انسان ۔۔۔کی تلاش میںہیں ۔ پاک دل وپاک باز پیر رومی ؒخلقت کے بازار میں نکلے ہیں۔ ہر طرف چہل پہل ، لوگ کاروبارِ زندگی میں مست و مگن ، خرید وفروخت عروج پر ،گپ شپ کی محفلیں گرم ، لاپروائی اور بے نیازی کی پر چھائیاں چاروں اطراف میں۔۔۔ مولانا رومیؒ کو چراغ ہاتھ میں لیے بازار میں کچھ کھوجتا پا کر کوئی تحیر کے عالم میں پوچھتا ہے : :حضرت!یہ نصف النہار کے وقت آپ نے اپنے ہاتھ میںچراغ کیوں پکڑا ہے؟ پیر رومیؒ ایک نظر سائل کی طرف ڈال کر تھوڑے توقف کے بعد بولتے ہیں:’’انسانم آرزوست‘‘ ۔۔! مجھے انسان کی جستجووآروز ہے !!! سائل کے چہرے پر تعجب واضطراب کے آثار ہویدا ہوتے ہیں۔ کہتا ہے: حضرت!بازار کے چاروںا طراف جہاں نظر دوڑائیے انسان ہی انسان نظر آرہے ہیں۔ یہ بازار تو انسانوں سے بھرا پڑا ہے، پھر آپ کیا فرما رہے ہیں کہ انسان کی تلاش میں چراغ ہاتھ میں لیے پھر رہا ہوں؟ پیررومیؒ جواباً کہتے ہیں : اگر تم واقعی چشم ِبینا رکھتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ’’انسان‘‘ نامی شئے اس دنیا میں عنقا ہے ،آج انسان نما حیوان کا چلن ہے ۔ شکلیں تو انسانوں جیسی ہیں لیکن افعال و کردار حیوانوں اور چوپایوں جیسے۔ جس مقصد کے لیے خالق کائنات نے جانوروں کو پیدا کیا، اگر وہیں مقاصد انسانوں نے بھی اپنائے ہیں تو پھر انسان اشرف المخلوقات کیوں کر ٹھہریں ؟ جو حرکات و سکنات ایک جانور کی ہوں، اگر انہی افعال کاارتکاب انسان کرنے لگے تو اشرف المخلوقات کا تاج اس کے سر کیوں باندھ دیا جائے؟ ظاہر بین نگاہوں سے تمہیں جو انسان دکھائی دے رہے ہیں، دراصل ظاہری قالب میں یہ وحشی جانوروں کی مختلف اقسام ہیں۔پیر رومیؒ کی گہری باتیں سائل کے فہم وادارک کے بند کواڑ کھولنے سے ابھی قاصر ہیں ،وہ جاننا چاہتا ہے کہ رومی ؒ کا منشائے کلام کیا ہے ، وہ رومیؒ کی اس معنی خیز تلاش میں چھپے دردوکرب سے رسائی چاہتاہے ، وہ مقصد کی بات کو پالینے کی ذہنی کشمکش میں مشغول ہے ۔ کچھ فکر کے چراغ روشن کر کے ، کچھ عقل کے راستے کھوج کے ، کچھ فہم کی چوٹیاں سر کر کے وہ سمجھ لیتا ہے کہ پیر رومیؒ کی تلاش کوئی عام تلاش نہیں بلکہ حضرت انسانی دنیا کے امراض کی دُکھتی رگ پر انگلی رکھ کر بتا نا چاہتا ہے کہ انسان دنیا سے معدوم ہیں ،ا نسانیت ناپید ہے ، انصاف زندہ درگور ہیں ، اس لئے دنیا میں فتنہ وفساد اور جنگ وجدل کے اندھیارے چھائے ہوئے ہیں ۔
ہم اور آپ ذرا موجودہ زمانے کے جان لیوا حالات کا عقل وشعور کے پیمانوں کی روشنی میں جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کیا یہ اہم ترین سوال ہمارے ذہن میں کبھی کلبلاتاہے کہ کیا ہم واقعی انسان ہیں ؟ کیا ہمارے اندر انسانیت زندہ و پائندہ ہے؟ یا ہم دوغلے پن کے شکار ہیں کہ بظاہر انسان کے نام سے موسوم ہیں ، بڑے حسین لبادوں میں ملبوس ہیں لیکن بہ نظر غائر گریبان جھانکئے تو نظر آئے گا کہ اپنی اپنی جگہ درحقیقت انسانیت کے تمام حدود پھلاند کر ہم حیوانیت کی تجسیم مرکب ہیں، جن کی ہر ہر ادا ہر ہر جنبش سے زیست برائے خوردن نہ کہ خوردن برائے زیستن( زندہ رہنا برائے شکم پروری نہ کہ کھانا صرف زندہ رہنے کے لئے ) کا تصور عملاً جھلکتا ہے ۔ بتائیں مجھے انسانیت کہاں کہاں دفن نہیں کردی ہے ہم نے؟ آج دنیا کے انسانوں کے اندر انسانیت کا فقدان نظر آرہا ہے۔ بظاہر انسان لیکن بہ باطن خوف ناک درندے ، بلکہ ان سے بھی بڑھ کر حیوانیت کے پیکر، جن کی رگ رگ میں ظلم اور بربریت کا خون دوڑتا ہے، جن کی آنکھوں سے شیطنیت ٹپکتی ہے، جب ظلم کرنے پراُتر آتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ جن پر ہم مظالم کی انتہا کررہے ہیں وہ بھی ہماری ہی طرح کے انسان ہیں۔ قانونِ انسانیت کے ان بے شرم و بے غیرت باغی ہی تو ہیںکہ اگر کسی آٹھ سالہ بچی کی عزت ریزی اور قتل کے سنگین جرم میں ملوث’’اپنے ‘‘ ملزم کو بچانے کا سودا ان کے سر میں سما جائے تو جلسہ جلوس نکالنے کو تیار ، بھلے ہی اس سے دھرتی پر ظلم وعدوان کا پھر یرا لہراتا رہے ، ظالم کی جے جے کار ہو اور مظلوم کودھتکار ملے۔ آج کا انسان ایک ایسے خوفناک وحشی درندے کا روپ دھارن کر چکا ہے کہ حیوانیت اور بربریت کا ایسا خو ف ناک اور ظالمانہ مظاہرہ کرگزرتا ہے کہ جس کے بعد بے اختیار منہ سے نکلے : اے انسانیت! اب کرہ ٔ ارض پر تیرا کیا کام ؟ جموں کے ضلع کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی آصفہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر بے دردی سے قتل کرنے والاایک انسان نما وحشی حیوان ہی توہے لیکن اس حوالے سے انسان کے قعر مذلت میں گر جانے کا یہ بدنمامنظر چشم فلک نے دیکھا کہ اسی بدبخت درندے کو قانون کی پکڑ سے بچانے کے لیے ہندو ایکتا منچ کے بینر تلے قاتل و بلات کاری ملزم کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں ، مظاہرے کئے گئے اور فرقہ پرستی کے ہیبت ناک بھوت کو کھلا چھوڑ دیا گیا کہ جسے چاہے اُچک لے مگر ملزم کا محافظ بنارہے۔ شام میں بھی یہ انسان نما حیوان ہی تو ہیں جو مظلوموںور نہتوں کو دن رات کچا چبا رہے ہیں، ان پر آتش و آہن کی بارش کرر ہے ہیں۔شام کے شہر الغوطہ کے دشت وصحرا سے لے کر گلی کوچوں تک کو یہی حیوان خونِ مسلم سے نہلا ر ہے ہیں، جب کہ عالمی طاقتوں کے نام پر یکجا خون خوار درندے اپنے اپنے حیوانی ریوڑوں کی مدد کے لئے قتل وغارت گری کے سابقہ ریکارڈ توڑ ے جا رہے ہیں۔ آج ان اندوہ ناک حالات میںہمیں ملکوں ملکوں پھر ایک بارپیر رومیؒ کی پکار ’’انسانم آرزوست‘‘ کی صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے، کیونکہ انسانی دنیا آدم خورحیوانوں کے نرغے میں ہے ۔ یہ دراصل اسی چیز کا شاخسانہ ہیں کہ دنیا انسانیت سے تہی دامن ہوچکی ہے (الا ماشاء اللہ) ۔ دنیا جہاں میں ظلمت بھری فضا ئیں اور خون آشامیاںاسی محرومی کی پیدا کردہ ہیں ۔ اس دنیا کا درد ختم کرنے کے لئے انسانی قدروں کا احیاء نو ہی ایک داحد نسخہ ٔ علاج ہے مگر ہے کون وہ جو اس صلاح وفلاح کا بیڑا اُٹھاے؟ بہرکیف انسانیت اُجڑے چمن کو دوبارہ شاداب کرنے کی پہل تو انسان کو ہی کرنی ہے اور بقول علامہ اقبالؒ ؎
آدمیت احترام آدمی ۭباخبرشو از مقام آدمی