ریاستی حکومت نے کشمیرمیں 22سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ایک ماہ کے لئے پابندی عائد کرکے ایک اور سبقت حاصل کرلی ہے، کیونکہ انٹرنیٹ متعارف ہونے کے بعد سے اب تک پورے ہندوستان میں ایسی کوئی مثال دیکھنے کو نہیںملتی۔ گوکہ ریاست میں 2012سے وادی میں انٹرنیٹ اور سلیولر فونوں کی سروس پر متعدد مرتبہ قدغن عائد کرنے کی تاریخ موجود ہے، لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تیز رفتار انٹرنیٹ سروس3جی اور 4جی پر پابندی عائد کرنے کے بعد اب انٹرنیٹ خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو دو درجن کے قریب سائٹوں کے توسط سے کسی بھی تحریری یا تصویری مواد کی ترسیل ایک مہینے تک کے لئے بند کرنے کا حکم جاری کیا گیاہے، جس کے لئے یہ جواز پیش کیا گیا ہے کہ شرپسند عناصر فتنہ پرور مواد کی ترسیل سے امن عامہ کے لئے خطرات پیدا کررہے ہیں۔ یہ فیصلہ متحدہ کمان کونسل، جس کی صدر نشین ریاست کی وزیر اعلیٰ ہیں، کے اجلاس میں کشمیر کے اندر موجود سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لئے جانے کے بعد کیا گیا۔ اس طرح آسان لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ برطانوی عہد حکومت کے ایک قانون کا سہارا لیکر کشمیر کو اندھیرے میں غرق کرنے کا قانونی بندوبست کیا گیا کیونکہ آج کے دور میں انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ پر دنیا کا انحصا اس حدتک بڑھ گیا ہے کہ کسی بھی کام، خواہ وہ تجارت ہو صنعت ہو تعلیم و تعلم ہو یا دیگر پیشہ وارانہ امور، کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ خاص کر تجارت و مالیات اور تعلیم کے شعبوں کو اس پابندی سے جس پیمانے پر تباہی کا سامنا ہوگا، اس کے بارے میں اس وقت اندازہ لگانا بھی مشکل ہے، کیونکہ اس پابندی کے عرصہ کے دوران فکر و عمل کی ترقی میں دنیا جس قدر آگے بڑھے گی، اُسی قدر کشمیر پیچھے چلا جائے گا اور اس طرح یہ دہرے نقصانات کا سبب بنے گا۔ مرکز و ریاست کی حکومتیں سیاحت اور آئی ٹی سیکٹر کے فروغ کو روزگار کے وسائل پیدا کرنے کا کلیدی ذریعہ قرار دیکراسے مختلف زاویوں سے کشمیر کے اندر موجود بے چینی کے خاتمے سے جوڑنے میں بھی پیش پیش رہتی ہیں، لیکن اس فیصلے سے ان دو سیکٹروں کا کیا حال ہوگا ، وہ بیان سے باہر ہے۔ مرحوم مفتی محمد سعید اور موجودہ وزیر اعلیٰ نے بار بار اپنے بیرونِ ریاست دوروں کے دوران وہاں کے بڑے تجارتی اور سیاحتی اداروں سے رابطے کرکے انہیں مختلف سہولیات اور مراعات کے ذریعہ یہاں ان سیکٹروں کو فروغ دینے کی ترغیبات دیں، آج اُن پیش کشوں کا کیا جواز باقی رہتا ہے اس کا جواب وزیرا علیٰ ہی دے سکتی ہیں۔ سرکار نے اس فیصلے کے لئے ریاست کے اندر موجود امن و قانون کی صورتحال کو وجہ قرار تو دیا ہے لیکن فیصلہ لیتے وقت کیا اس حقیقت کا جائزہ لیا گیا کہ یہ امن و قانون کی صورتحال کیوں بار بار پیش آتی ہے؟ کیونکہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے بلکہ گذشتہ70برسوں کی تاریخ اس امر کا بیانیہ ہے کہ ہر دور میں کسی نہ کسی حوالے سے صورتحال مختلف عنوانوں سے دگرگوں رہی ہے۔ دنیا بھر میں اگرچہ یہ احساس دن بہ دن اُجاگر ہورہا ہے کہ کشمیر کی صورتحال برصغیر ہند و پاک کے بٹوارے کی دین ہے مگر یہاں مختلف عنوان دیکر اس حقیقت پر سے توجہ ہٹائے جانے کا عمل ایک ایسی مسلسل حکمت عملی اختیار کرچکی ہے، جس سے کوئی بھی حکومت اپنا پنڈچھڑانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران کشمیر مسئلہ کے تمام فریقین کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے مذاکرات کی ڈور وہاں سے اُٹھائے جانے کی بات کی جہاں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں اس اسے چھوڑ دیا گیا تھا۔ کیا اس نئے فیصلے جیسے اقدامات سے اس ڈور کا سرا پکڑا جاسکتا ہے؟ ایک اوسط فہم و فراست رکھنے والا شخص بھی غالباً اس سے اتفاق نہیں کریگا۔ ظاہر بات ہے کہ سخت اقدامات کے سخت سیاسی و اقتصادی نتائج کے ساتھ ساتھ سخت ردعمل سامنے آنے کے غالب اغلب ہونے سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ اس فیصلے سے یہ بات پھر ظاہر ہوئی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے ہر پہلو کو سیکورٹی نکتہ نگاہ سے دیکھنے کی مرکزی حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ اپروچ دن بہ دن زیادہ مضبوط ہوتا جارہا ہے تو شائد غلط نہ ہوگا۔ وزیر اعظم کی طرف سے تین ماہ کے اندر امن وقانون کی صورتحال کو بہتر بنانے اور اس کے بعد مذاکرات کے عمل پر سوچنے کی بات کرنا اسی پالیسی کے ارد گرد کی بات نظر آتی ہے۔ ایک ایسے وقت پر، جب سکریٹریٹ جموں سے سرینگر منتقل ہورہاہے نیز انتظامی امور کار کی فیصلہ سازی یہاں ہونی ہے اور کشمیر میں سیاحت و اس سے منسلک شعبوں کا کام کاج شروع ہونے والا ہے، انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ پر پابندی کا فیصلہ نہایت ہی حیران کن اور مایوس کن ہے کیونکہ موجودہ دور میں کوئی بھی کام اس کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر آگے چل کر اس پابندی میں توسیع کی گئی تو اقتصادی سرگرمیوں کے ایک نئے سیزن کی تباہی کے آثار واضح ہوکر سامنے آرہے ہیں جبکہ گذشتہ برس کے تباہ کن حالات کے زخم ابھی رِس رہے ہیں۔