اُنیسویں صدی میں برطانوی راج کے دوران ہندوستان میں ایک ایسا ٹولہ موجود تھا جس کا پیشہ صرف ٹھگی تھا ۔وہ مختلف دھوکہ دھڑی کے طریقے اپناکر راہ گیروں اور مسافروں کو اپنے دام میں پھانس دیتے، اُن کا سب کچھ چھین لیتے اور اُن کو اس طرح سے غائب کردیتے تھے کہ پولیس خبریوں ،مخبروں اور جاسوسوں کا استعمال کرنے کے باوجود بھی مغویہ یا گمشدہ فرد یا افراد کا کوئی سراغ لگانے سے قاصر رہتی۔انگریز پولیس نے گرچہ اس بارے میں مختلف سپیشل اسکارڈ ترتیب دے کر اطراف میں پھیلادئے مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور وہ پریشانی سالہا سال تک حکومت کو پریشان کرتی رہی ۔یہ ٹھگ عام شہریوں کی طرح بستیوں اور رہائشی علاقوں میں رہائش پذیر ہوتے اور عام لوگوں بلکہ عام شرفاء کی طرح بود باش رکھتے تھے ۔وہ کاروباری یا سوداگروں کے بطور مشہور ہوتے تھے اور مختلف ضروریاتِ زندگی کے سامان کا لین دین اور کاروبار کیا کرتے تھے ،جن میں ملبوسات و اجناس ،مصالحہ جات اور زیورات تک شامل ہوتے تھے۔
اُن کے کام کرنے کا طریقہ مختلف اور قتل کرنے کاڈھنگ اُس سے بھی زیادہ نرالہ ہوتا تھا ۔سال میں ایک یا دو بار اچھے موسم میں وہ ایک خاندان کے دس افراد میں سے مان لیجئے تین مرد چار مستورات اور ایک آدھ بچہ اپنا گھوڑا گاڑی ،بگھی تنبو لے کر کاروباری سفر کے لئے کسی طرف نکل جاتے تھے اور عام لوگ بلکہ سرکار بھی اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیتی تھی کیونکہ اُن دنوں زیادہ تر کاروبار ویسے ہی ہوتا رہتا تھا اور تاجروں ،سوداگروں کے قافلے قریہ قریہ ،گائوں ،قصبوں گھومتے رہتے تھے بلکہ کئی علاقہ جات میں بارٹر سسٹم کابھی چلن تھا ۔
سفر میں شام ہوجانے سے قبل وہ کوئی مرتفع مسطح جگہ دیکھ کر قیام کرتے اور اپنے خیمے تنبو گاڑھ کر اپنے ٹھہرنے کی جگہ مختص کرنے کے علاوہ مستورات چولہا چکی بھی سنبھالتی تھیںمگر یہ قیام بالکل عارضی نہیں ہوتا تھا۔وہ لوگ اُس جگہ کام ہوجانے کی صورت میں ایک دو دن اور نہ ہوجانے کی صورت میں ہفتہ عشرہ بھی اپنے شکار کی ٹوہ میں رُکتے تھے ۔اب ہوتا کیا تھا ،کوئی سیٹھ ساہوکار ،کاروباری یا کوئی بھی انفرادی یا اجتماعی حیثیت میں مسافر اپنے سامانِ خرید یا سامانِ فروخت کے ساتھ وہاں سے گزرتا تو وہاں پر آگے ہی لگا ہوا کیمپ دیکھ کر وہ سیفٹی کی خاطر اُسی جگہ پر قیام کرنے کو ترجیح دیتا ۔اس طرح سے ٹھگوں کے بھاگ کھلتے۔جونہی قافلہ وہاں قیام کرنے کا من بناتا توٹھگ یک دم سے آکر اُن کو خوش آمدید کہتے ،اُن کو قناتیں اور تنبو وغیرہ گھاڑنے میں اُن کی مدد کرتے بلکہ اُن کو یہ صلاح بھی دیتے کہ انہوں نے اچھا کیا جو وہاں پر ہی ڈیرہ ڈال دیا کیونکہ ایک سے بھلے دو کے مترادف چوروں لٹیروں اور ٹھگوں سے بھی محفوظ رہا جاسکتا ہے ۔اُن کے انداز ہی نرالے ہوتے تھے گویا ’’سب کام چل رہے تھے ہنر کے بغیر بھی۔‘‘
یہ نیا آنے والا قافلہ اگر تین چار افراد سے تجاوز کرجاتا یعنی پانچ چھ افرادپر مشتمل ہوتا تو ٹھگ محتاط رہتے اور سوچ سمجھ کر ہی کوئی قدم اٹھاتے اور اگر دو تین افراد کا ہوتا تو اُن کے لئے کوئی تشویش کی بات نہ ہوتی۔مان لیجئے کوئی کاروباری ،تجارت پیشہ فرد اپنے ایک دوملازمین کے ساتھ ٹھگوں کی ہم نشینی اختیار کرتا تو اُس صورت میں وہ مالک کی خوب آئو بھگت کرتے، اُس کے شوق دریافت کرکے اُس کو اُسی بہانے ایک الگ خیمے میں لے جاتے ۔عورتیں باہر پہرہ دیتیں اور مرد خیمے کے اندر ادھر اُدھر کی باتوں میں لگاتے بلکہ اُس کے شوق کو شوق کے ساتھ پُر بہار بناتے ۔پھر ایک ٹھگ اُس کے پیچھے سے آکر ایک بڑا ریشمی رومال جس کے دو سروں پر دو سکے بندھے ہوتے تھے تاکہ رومال کسنے کے وقت ہاتھوں سے پھسل نہ جائے۔،اُس کے گلے میں ڈالتا اور اُس وقت تک کستا رہتا تھا جب تک کہ وہ بے دم نہیں ہوجاتا اور اس دوران دوسرے اُس کے جسم کو پکڑے رہتے تھے۔
اس طرح سے اُس کا قلع قمع کرکے مقتول کو اُسی جگہ پر گھڑا کھود کر اُسے دفنایا جاتا اور زمین کی اوپری سطح کو ہموار کرکے اُس پر راکھ ،سوکھی مٹی ،خشک پتے غرض یہ کہ اس طرح سے زمین کی سطح بنائی جاتی کہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں کچھ ہوا تھا ۔ملازمین بے چارے تھکے ہارے ہوتے جلدی سوجاتے تو اُن کو اُسی حالت میں اپنی مخصوص ٹیکنک سے پھندا لگاکر پھر وہی عمل دہرایا جاتا ۔ اُس کے بعد مال مسروقہ پر قبضہ کرکے اُُن کی بقیہ ماندہ اشیاء جیسے تنبو گاڑی وغیرہ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگاتے اور اگلی منزل کی طرف بڑھتے، بصورت دیگر اگر ہاتھ زیادہ تگڑا پڑا ہوتا تو واپس گھر کو کچھ سامان کے ساتھ بازار میں بیچنے کے لئے لوٹتے ۔ ٹھگوں کے لئے حکومت سالہا سال تک پریشان رہی ۔ وہ نہ ٹھگوں کو ہی پکڑ پارہی تھی اور نہ اُن کے کام کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں جان پارہی تھی ۔گویا بقول کسے ’’وہ اپنی مثال آپ تھے اور بے مثال تھے۔‘‘
ٹھگی تو بہر حال اگرچہ تقسیم وطن کے دنوں میں وقتی طور حالات کی نذر ہوگئی مگر ختم نہیں ہوئی بلکہ نئے طریقوں سے آ ج بھی جاری ہے ۔آزاد بھارت میں بنارسؔکے ٹھگ بڑی شہرت پاگئے ۔آج بھی اگر کسی دین دیالو بزرگ کو کاشی یاترا کے لئے بنارس جانا ہوتا ہے تو اُسے قبل از وقت ہی چیتاونی ملتی ہے ؎
رانڈ،سانڈ، سیڑھی ،سنیاسی
اُن سے بچے تو سیوے کاشی
اب بے چارہ ایک سیدھا سادھا بھگت کیا کرے جب گنگا اشنان سے قبل اور اُس کے بعد ہر سیڑھی پر کسی نہ کسی شکل میں اُسے ایک ٹھگ ملتا ہے اور اسے بُری طرح ٹھگتا ہے اور بھگت مشکل سے صرف اپنے تن کا لنگوٹ ہی بچا پاتا ہے ؟وہ اپنے آپ کو کوستا ہے کہ گھر میں ہی بھلے تھے ۔کاشی یاترا نے اپرم پار تو کیا کرنا تھا اس کے برعکس اپنی لُٹیا ہی ڈبو دی ۔یہ صرف وہاں ہی تک محدود نہیں بلکہ دھرم ،مذہب کے نام پر بیسیوں جگہوں پر اُچ کوٹی کے اپرادھ کرکے دھرم اور مذہب کو بدنام کیا جاتا ہے ۔ایسے کتنے ماڈرن ٹھگ آج بھی آپ کو جگہ جگہ پر ملیں گے ۔پُرانے وقتوں میں ٹھگی اگرچہ پرانے طور طریقوں سے روبہ عمل لائی جاتی تھی مگر آج کل ٹھگی کے انداز بڑے دلفریب ہوگئے ہیں ۔کشمیر ی لوگ سیدھے سادھے اور نرم دل ہونے کی وجہ سے عام طور پر ہر جگہ ریاست میں ،ریاست سے باہرٹھگ لئے جاتے ہیں اور وہ ایک ’’معمول‘‘کی طرح آسانی سے ٹھگ جاتے ہیں ۔ٹھگنے والوں کے لئے بقول ملا آصفؔ کشمیری ایک صفت یہ ہے ؎
جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ وہ کہتے ہیں
دھوکہ دھڑی ہے اُن کی خصلت وُٹ اِز دِس
………………………..
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995