فوج لیپا اور نوگام سیکٹر میں فرضی ویڈیوز بنانے میں مصروف
اشفاق سعید
سرینگر// عوامی اتحاد پارٹی کے صدر انجینئر رشید نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ بھارت عالمی برادری اور عوام کو سرجیکل حملوںکے ثبوت فراہم کرنے کیلئے نوگام اور لیپا کے سرحدی علاقوں میں گذشتہ کئی دنوں سے فرضی ویڈیوز بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے تاکہ ان ویڈیوز کو سرحد پار سرجکل اسٹرئیک کے ثبوت کے طور پیش کیا جاسکے ۔انہوں نے بھارتی فوج کو مشورہ دیا کہ وہ بی جے پی کے سیاسی فائدے کے لئے اپنی شبیہ کو داغدار نہ بنائے۔سرینگر کے ایک مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کے دوران رشید نے کہا کہ کچھ دن قبل بھارت نے سرحد پار 5مقامات پر سرجیکل اسٹرئک کا دعویٰ کیا۔انہوں نے کہا کہ باقی جگہوں کا مجھے پتا نہیں ہے لیکن نوگام اور لیپا سیکٹر میرے اسمبلی حلقہ میں آتے ہیںجہاں سے لوگوں اورذرائع سے مجھے پتہ چلا ہے کہ وہاں پر پچھلے 20دنوں سے کوئی بھی گولی نہیں چلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیپا اور نوگام سیکٹر میں فوج بینکر بنا کر ان کے فرضی ویڈیو اُتار رہی ہے تاکہ ان ویڈیوز کو بھارت میں آواز اٹھنے کے بعد سرجیکل حملوں کے ثبوت کے طور پیش کیا جاسکے ۔ممبر اسمبلی لنگیٹ نے کہا کہ جو چیزیں میرے علاقے میں ہو رہی ہیں اگر میں وہ نہ کہوں تو یہ ٹھیک نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ سارا ڈرامہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے ہو رہا ہے۔ رشید نے کہا کہ اگرچہ ماضی میں مژھل سے لیکر پتھری بل تک فرضی انکاونٹروں کے کئی ڈرامے رچائے گئے ہیں لیکن سرجیکل سٹرائک اور پاکستانی عسکریت پسند بہادر علی کی گرفتاری ان ڈراموں میں نئے ایڈیشنوں کا اضافہ ہے۔انہوں نے بھارتی فوج کو مشورہ دیا کہ وہ معتبر اور نظم و ضبط کی پابند فوج کی طرح کوئی بھی فرضی ڈرامہ رچانے سے باز آجائے۔انہوں نے کہا کہ سرجیکل سٹرائیک کے پیچھے وجوہات کو سمجھتے وقت یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ اسی سال جون کے مہینے میں ہندوستان ٹائمز میں یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا کہ بی جے پی راجناتھ سنگھ کو نومبر میں یو پی کے لئے اپنے وزیر اعلی کے امیدوار کے عہدے کے لئے نامزد کر رہی ہے لیکن اس سے پہلے راجناتھ سنگھ جموں کشمیر میں کسی بڑی فوجی کاروائی کروانے کے منصوبہ پرعمل کر کے یو پی کے ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کریں گے۔ انجینئر رشید نے کہا کہ جب ہندوستانی فوج نے سرجیکل سٹرائیک کرنے کا دعوی کیا تب راہل گاندھی سے لیکر اروند کیجریوال تک نے مودی کی تعریفیں کی اور اب جب یہ جماعتیں خود بھی ان حملوں کے بارے میں ثبوت فراہم کئے جانے کا مطالبہ کر رہی ہیں تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں فوج کو نہ صرف اپنے حقیر مفادات کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہیں بلکہ کشمیریوں کو بھی ڈرا دھمکا کر خاموش کرنا چاہتی ہیں۔ہندوستانی سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ دلی کے تخت کی لڑائی کشمیر کی سرحدوں اور سڑکوں پر نہ لڑیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر واقعی بھارت کی فوج کے یہ دعوے درست ہیں کہ اس نے آزاد کشمیر میں سرجیکل حملے کئے تو پھر پاکستان کی سرکار کی طرح وہ بھی کیوں نہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو سرحد کا دورہ کرنے کی اجازت دیتی۔رشید نے پاکستانی عسکریت پسند بہادر علی کی گرفتاری کو ڈرامہ قرار دہتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی بھی با اعتبار تحقیقاتی ایجنسی یا صحافی اگر آج بھی کپوارہ ضلع کے ہائیہامہ گائوں کا دورہ کرے تو اس سے پتہ چلے گا کہ بہادر علی کو کن ڈرامائی حالات میں گرفتار کیا گیا۔جہاں لگ بھگ چار دنوں تک بہادر علی پورے علاقے میں موٹر سائیکل پر آزادانہ گھومتا رہا وہاں اس سے گرفتار کرنے کے لئے نزدیکی تھانے سے صرف دو سپاہی چل کر آئے اور پھر اس سے سیول گاڑی میں بٹھا کر تھانے لے گئے۔حد تو یہ ہے کہ اگلے دن میں ٹاسک فورس اور فوج کی جماعت نے گائوں میں آکر تصاویریں کھینچی اور یہ تاثر دیا کہ انہوں نے کل کسی جنگجو کو پکڑا ہے اور آج اس کا ہتھیا بر آمد کیا ہے۔اس کے 6 دن بعد قومی میڈیا پر نہ صرف بہادر علی کو بہت بڑے عسکری کمانڈر کے طور پیش کیا بلکہ اس سے انتہائی خطر ناک منصوبہ ساز بھی قرار دیا گیا۔ رشید نے کہا کہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر بہادر علی اس قدر خطرناک کمانڈر تھا تو وہ کیسے صرف دو پولیس والوں کے ہاتھ آگیا۔ انہوں نے فوج سے کہا کہ اُن کی دشمنی ان سے نہیں ہے لیکن فوج کو چاہئے کہ وہ ایسی سازشوں کا حصہ نہ بنیں اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوںکو داغدار نہ بنائے۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ مجھے پاکستانی اجنٹ نہ کہیے مجھے اس سے کافی تکلیف ہوتی ہے ۔ میں کبھی پاکستان نہیں گیا ہوں ۔میں صرف ایک بات کہتا ہوں کہ کشمیر کا تنازہ رائے شماری سے حل کیا جاسکتا ہے ۔