جموں و کشمیر میںسرکاری انتظامیہ کے بیشتر شعبوں میں ایک طویل عرصےسےرشوت ستانی ،بدعنوانی اوربے راہ روی کا جو رجحان فروغ پاچکا ہے ،وہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔چنانچہ سرکاری شعبوں میں بعض اوقات سیاسی وجوہات کے تحت بلا وجہ اور بلا ضرورت بہت زیادہ ملازمین داخل کرنے کا جو غلط طرز عمل اپنایا گیا ،اُس سے مختلف سرکاری شعبوں کے قیام کا بنیادی مقصدہی فوت ہوکر رہ گیا،جن میں انجینئرنگ محکمے کےمختلف شعبےبھی شامل ہیں۔اس وقت بھی سرکاری انتظامیہ کے بیشتر شعبوں میں اگرچہ ملازمین اور افسروں کی بھرمارہےلیکن کسی بھی شعبے کی کارکردگی میں کوئی قابل ِ ذکرکام نہیں ہورہا ہے۔جبکہ انجینئرنگ شعبوں کی کارکردگی حد سے زیادہ ناقص اور ناکارہ ہی رہی ہے۔آج بھی ان شعبوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو ہر صورت میں ناقص اور پست نظر آتی ہےاور ایسا لگتا ہے کہ وادیٔ کشمیر میں انجینئرنگ شعبے محض برائے نام کے قائم ہیں،کیونکہ ایک طویل عرصے کے دوران اس شعبے کی طرف سے ایسی کوئی کارکردگی سامنے نہیں آ سکی ہے ،جسے قابل قدر یا قابل ذکر کہا جاسکتا۔البتہ انجینئرنگ شعبوں نے جو سب سے نمایاں کام سر انجام دیا ہے ،وہ اُن کی بد عنوانیوں کے نام پر ہی یاد کیا جارہا ہےبلکہ بعض اوقات اس معاملے میں انہوں ریکارڈ بھی قائم کردیئے ہیں۔آج بھی اگر وادی کے اطراف و اکناف کے دیہات ،دور دراز علاقوں میں عموماًاور شہر سرینگر کے گنجان آباد علاقوں میں خصوصاً انجینئرنگ شعبوں کی طرف سے کئے جارہےکام کا بغور جائزہ لیا جائے تو صورت حال میں کسی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔جس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ابھی تک انجینئرنگ شعبوں میں شفافیت لانے اور انہیں مفید اور موثر کام کے اہل بنانے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں ہوسکی ہےاورنہ ہی ان شعبوں کی کارکردگی کا موثر طریقے پر محاسبہ کیا جارہا ہے۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ شعبے روایتی پالیسیوں کے تحت مصلحتوں اور مفادات کے مطابق ہی اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ گذشتہ پنتیس برسوں کے دوران جتنا سرمایہ تعمیراتی کاموں پر صرف کیا جاچکا ہے،اُس کا محاصل بھی ہمارے سامنے ہے۔شہر سرینگر کے گنجان آباد علاقوں خصوصاً شہر خاص جسے ڈائون ٹاون کا نام سے بھی یاد کیا جارہا ہے،کی حد درجہ خستہ حالی اور مختلف مضافات کی شکستہ صورت حال اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔کروڑوں روپے کے اخراجات دکھائے جانے کے باوجود بعض جھیلیںبدستور روبۂ زوال ہیں۔پینے کے پانی کا کوئی بھی پروجیکٹ عوام کو پانی کی سپلائی بہتر ڈھنگ سے دستیاب کرنے کا سبب نہ بن سکا ہے۔آج بھی بیشتر دیہات سمیت شہری عوام کی ایک خاصی تعداد پینے کے صاف پانی کے لئے ترستے رہتے ہیں۔اگرچہ مختلف علاقوں میں نکاسی ٔ آب کے کاموں پر اَن گنت رقومات خرچ کی گئیں لیکن نکاسیٔ آب کا مسئلہ جُوں کا تُوں ہے۔آج بھی جب بارشیں ہوتی ہیں تو بیشتر علاقے اور سڑکیں ندی نالوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ جو کوئی ڈرین تعمیر کی گئی وہ محض چھ ماہ تک بھی صحیح حالت میں رہ نہیں پاتی بلکہ لوگوں کے رہائشی مکانوں اور دوسرے تعمیرات کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں۔مختلف سڑکوں ،شاہراہوں کی بار بار تعمیر کے باوجود ان کی ناگفتہ بہ حالت بدستور انجینئرنگ شعبوں کی بدعنوانی اور ناقص کارکردگی پر ماتم کررہی ہیں۔جہاں جہاں سڑکوں ،شاہراہوں ،پُلوں اور دیگر ترسیلی سڑکوں پر فُٹ پات تعمیر کئے جاتے ہیں ،وہ ہر چھ ماہ کے بعد دوبارہ تعمیر کرنے پڑتے ہیں،یہی صورت حال شہر بھر تعمیر کی جارہی نالیوں اور ڈرینوںکی بھی ہوجاتی ہے،جو اس بات کی دلیل ہے کہ جو رقومات ان پرجیکٹوں یا تعمیراتی کاموں کے ناموں پر متعلقہ شعبوں کے افسر ، اہلکار اور ٹھیکیدار حاصل کررہے ہیں ،اُس کا زیادہ تر حصہ یہ لوگ مل بانٹ کرکھا جاتے ہیںاور پھر بھی ان لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انجینئرنگ شعبوں میں چوری چکاری ،لوٹ کھسوٹ اور بد عنوانیوں میں ملوث لوگوںکا احتساب کیا جاتا اور انہیں قانون کے شکنجے میں لا یا جاتا، تاکہ اُنہیں ،اُن کی کرتوتوں کی سزا مل جاتی اور اِس روایتی بُرائی اور خرابی کا انسداد ہوجاتا ،لیکن بد قسمتی ایسا نہ ہوا ، نہ ہورہا ہے اور نہ ہی ہونے کی اُمید ہے۔جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی بد عنوانیوں میں ملوث بیشتر انجینئر اور اُن کے ماتحت عملے آج بھی اپنی روایتی پالیسی پر گامزن ہیںاور حسبِ معمول تعمیراتی کاموں کے لئے ادا کی جارہی خزانہ عامرہ کی رقومات بُرباد ہورہی ہیںاورعوامی مفادات کا نقصان حسبِ دستورجاری و ساری ہے۔