بابر نفیس۔ڈوڈہ، جموں
ضلع ڈوڈہ کا سب ڈویژن ٹھاٹھری تین تحصیلوں پر مشتمل ہے۔یہ تینوں تحصیلیں پہاڑی علاقوں پر ہی مشتمل ہیں۔ان تحصیلوں کی اکثر پنچایتیں سردیوں کے چار مہینے برف باری سے ڈھکی رہتی ہیں۔واضح رہے کہ اس دوران علاقوں میں کسی بھی آفیسر کا آنا جانا بالکل نہیں رہتا ہے۔ اس دوران لوگوں کو درپیش مشکلات کا حل بھی نہیں کیا جا سکتا۔پہاڑی علاقوں کے تمام راستے برف باری کی وجہ سے بند رہتے ہیں۔جس کے نتیجے میںان علاقوں کے باشندے کئی طرح کے مصائب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ سرکاری انتظامیہ کی طرف سے برف باری سے قبل ہی ان علاقوںمیںدرپیش مشکلات کا ازالہ کیا جاتا تاکہ برف باری کے بعد ان علاقوں کے رہائشیوںکی مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہوجاتا ،لیکن ایسا ہوتا کہیں دکھائی نہیں دیتا،نتیجتاً اب یہ علاقے آج ایک نامعلوم بیماری کی زد میں آگئی ہے،جس کے سبب یہاں کے مویشوں کو اپنی جانیں گنوا نی پڑ تی ہیں۔اس سلسلے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے مویشی کو ایک ہفتے پہلے بخارآتا ہے اور پھر وہ گھاس کھانا چھوڑ دیتے ہیں اورمحض دو ہفتے کے اندر اندر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔واضح رہے کہ ان پہاڑی علاقوں میں رہنے والے تمام لوگوں کا گذر بسر انہیں مویشیوں پر منحصر ہے۔ اس بات کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر علاقے میں سینکڑوں کی تعداد میں مال مویشی پالے جاتے ہیں۔لوگوں نے اس سلسلے میں کئی مرتبہ انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ اس جانب توجہ دے اور مویشیوں کی جان بچانے کا انتظام کرے،لیکن ابھی تک انتظامیہ کی جانب سے کوئی پہل نہیں ہوئی اور نہ ہی گاؤں میں جانوروں کے لئے ڈاکٹر بھیجے گئے ۔ جسے سے لوگوں کوکافی زیادہ نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔
اس سلسلے میں پہاڑی علاقہ سے تعلق رکھنے والے کئی سماجی کارکنان نے انتظامیہ سے کئی مرتبہ یہ اپیل کی کہ وہ پہاڑی علاقوں میںدرپیش مسائل کا برف باری سے پہلے ہی ازالہ کیا جائےلیکن کسی بھی اپیل کو خاطر میں نہیں لایا گیا ۔اس سلسلے میں جب ہم نے سماجی کارکن محمد اقبال وانی سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ سردیوں کی موسم میں پہاڑی علاقوں میں لوگوں کو طرح طرح کے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جن کے ازالےکے لئے انتظامیہ خاموش رہتی ہے۔جبکہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی قریباً تین مہینے تک برف باری کے باعث میں بند رہنے سے زبردست متاثر ہوجاتی ہے۔اگر برف باری سے قبل ان باتوں پر غور کیا جاتا تو ان علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس لئے پہاڑی علاقوں میں بنیادی سہولیات کو بر وقت مہیا رکھنا اولین ترجیح میں ہونا چاہئے۔ ایک اور سماجی کارکن عادل حسین کہتے ہیں کہ اس پہاڑی علاقے میں ہر سال یہ وباء پھیلتی ہے جس میں سینکڑوں مال مویشی ہلاک ہوجاتے ہیں۔جبکہ یہ مویشی اس پہاڑی علاقے کے لوگوں کی زندگی کا ایک اہم ذریعہ ہے جس سے ان کی آمدنی ہوتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ پہاڑی علاقوں میں ہر گھر میں کم سے کم دو بھینسیں اور ایک گائے ضرورپالی جاتی ہے۔ لیکن اس بیماری نے ان کی مشکلات میں اور اضافہ کر دیا ہے۔یہ مشکل اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ ان مویشیوں کے لیے ا دویات کا ملنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پہاڑی علاقہ کا معائنہ کریں اور جو بھی مال مویشی بیمار ہیں ،ان کے علاج کا بندوبست کرے۔یہ پالتومویشی خواتین کے لئے بھی بہت اہم ہیں۔اس سلسلے میں ایک خاتون زیتون بیگم کہتی ہیں کہ ہماری زندگی مال مویشیوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ہمارا گزر بسر مال مویشی کے بنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ہم ان علاقوں میں اگرہم زندگی بسر کرتے ہیں تو بس ان مویشیوں کی وجہ سے ممکن ہو پاتا ہے کیونکہ ہماری آمدنی کا یہی ایک اہم ذریعہ ہے۔اس کا گوبر اوردودھ وغیرہ وغیرہ بیچ کر ہم زندگی بسر کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مال مویشی نہ ہونے کی وجہ سے فصلوں میں کا بھی نقصان ہوتا ہے۔کاشتکار بطورکھاداستعمال کرنے کے لئے ہم سے ان کا گوبر خریدتے ہیں تاکہ کھیتوں میں دیسی خاد کا استعمال کیا جا سکے۔
ایک اور مقامی خاتون سائمہ بانواپنی پریشانی بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں جو مال مویشی بیمار ہوتے ہیں، اس سے جو نقصان ہوتا ہے اس کا کوئی بھی معاوضہ فراہم نہیں ہوتا ہے۔جبکہ انتظامیہ کو اس جانب توجہ دینی چاہئے تاکہ ہم غریبوں کے نقصان کی بھرپائی ہو سکے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے پہلے بھی ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈا وش پال مہاجن کو اس بارے میں آگاہی دی ہے کہ علاج کی عدم دستیابی سےجو مویشی مر چکے ہیں، ان کے لئے حکومت معاوضہ دینے کا انتظام کرا دیں،لیکن ابھی تک ہمیں کوئی جواب نہیں ملا ہے۔انتظامہ کی خاموشی ہماری مشکلیں بڑھا رہی ہے۔اس سلسلے میں بلاک ترقیاتی چیئر پرسن فاطمہ فاروق کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ سال سے مویشیوں میں یہ انجان بیماری مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس سال بھی جس طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں، یہ بالکل اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ آنے والے وقت میں لوگوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ میں اس سلسلے میں ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈہ سے بات کروں گی اور تمام مشکلات میں اس مشکلات کو درج اول میں رکھوں گی۔یہ بیماری کیا ہے اور یہ کیوں ہو رہا ہے؟اس سلسلے میں جانوروں کے ڈاکٹر طالب حسین نے بتایا کہ یہ بیماری موسمی حالات کے خراب ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس بیماری کی دوسری وجہ یہ بھی بتائی کہ گھاس میں خرابی ہونے بھی بیماری پھیلنے کا باعث بنتا ہے۔انہوں نے مویشی پالنے والوں کو صلاح دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو چاہیے کہ خراب گھاس جانوروں کو نہ دیا جائے، اس کے بجائے انہیں تازی گھاس کھلانی چاہئے۔انہوں نے بتایا کہ حکومت اور انتظامہ اس مسلے کو کافی سنجیدگی سے لے رہی ہے لیکن ضلع ڈوڈہ میں جانوروں کے ڈاکٹروں کی کافی کمی ہے۔اس لئے ڈاکٹر ہر گھر میں جا کر مویشیوں کامعائنہ نہیں کر سکتے ہیں،حالانکہ ایک کیمپ کی شکل میں ہر سال ایسا کیا جا سکتا ہے۔لیکن فی الحال محکمہ ادویات فراہم کرسکتا ہے تاہم مویشی پالنے والوں کو خود ہی احتیاط برتنی ہوگی اور انہیں اگر اپنے مویشی میں بیماری کی کوئی بھی علامت نظر آئے تو فوراً قریب کے جانوروں کے ڈاکٹر سے رابطہ کریں تاکہ ان کے مویشی کا وقت پر علاج ممکن ہو سکے۔مزید جب ہم نے اس سلسلے میں ایس ڈی ایم ٹھاٹری محمد اشرف سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ میں نے محکمہ کو اس کے بارے میں لکھا ہے کہ برف باری سے پہلے ہی پہاڑی علاقوں میں جو بیمار شدہ مویشی ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے اور ان کو دوایاں وغیرہ فراہم کی جائیں۔ لیکن جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ ایک ہفتے گذرجانے کے باوجود بھی ابھی تک کوئی ڈاکٹر پہاڑی علاقے کے دورے پر کیوں نہیں آیا تو انہوں نے بتایا کہ میں پھر سے ایک بار رابطہ کروں گا اور امید کروں گا کہ کچھ ہی دن میں ڈاکٹر وں کی ٹیم علاقے کا دورہ کر کے مشکلات کا ازالہ کرے۔بہرحال اب صرف یہی امید لگائی جا سکتی ہے کہ انتظامیہ جلد ازجلد ڈاکٹروں کی ٹیم کو ان علاقوں میں بھیجے تاکہ غریب عوام کی آمدنی کا ذریعہ ان کے مویشی اس انجان بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔ (چرخہ فیچرس)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)