محمد تسکین
بانہال // 2014میںجموں و کشمیر کے باقی علاقوں کی طرح ضلع رام بن میں بھی کئی نئے انتظامی یونٹوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس میں نئی تحصیلوں ، نیابتوں اور بلاک صدر مقامات کو منظوری دی گئی تھی لیکن اب گیارہ برسوں کا طویل وقت گزرنے کے باوجود یہ انتظامی یونٹ سرکاری دفاتر اور ملازمین کی کمی سے دوچار ہیں۔ ضلع رام بن میں تحصیل کھڑی – مہو منگت کا قیام بھی 2014میں لایا گیا لیکن اب گیارہ سال بعد بھی تحصیل کے نام پر یہاں صرف چند ایک سرکاری محکمے ہی کام کر رہے ہیں اور بیشتر سرکاری محکموں کے قیام کیلئے اب تک کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے تحصیل کا درجہ پانے کے باوجود تحصیل کھڑی مہو منگت کے درجنوں دیہات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگوں کو اپنے روزمرہ کے معاملات نپٹانے کیلئے ناقابل بیان مشکلات اور دشوار گزار زندگی کا سامنا ہے اور یہ سلسلہ تحصیل بننے کے بعد بھی جاری ہے ۔تحصیل کھڑی ۔ مہومنگت کے کئی لوگوں اور سماجی کارکنوں نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحصیل کھڑی کے گیارہ سال کے قیام کے بعد تحصیل کھڑی میں کوئی سرکاری عِمارت تعمیر ہی نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے تحصیلدار کھڑی کا دفتر ڈاک بنگلہ سے چل رہا ہے جبکہ علاقے میں واحد سرکاری بلڈنگ کے نام پر بی ڈی او دفتر ہے جسے پچھلے ہی سال تحصیل ہیڈکواٹر سے دور ایک ایسی جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں پہنچنے کیلئے سڑک تو دور کی بات ڈھنگ کا راستہ بھی نہیں ہے ۔ انتظامی یونٹوں میں ہی نیابت منگت کیلئے کرایہ کی ایک عمارت پر برسوں سے لاکھوں روپئے کا کرایہ تو ادا کیا گیا ہے لیکن ابھی تک نیابت منگت میں کسی نائب تحصیلدار کے قدم پڑے ہی نہیں ہیں اور نائب تحصیلدار منگت تحصیل ہیڈکواٹر پر ہی براجمان رہتے آئے ہیں ۔ تحصیل کھڑی میں کھوڑا ، کنڈن ، لبلٹھا ، دھنگام ،لٹسیر ، سراچی ،نادکہ ، باٹی باس ، بزلہ اور آکھرن کے علاقے ابھی تک سڑک رابطوں سے جوڑے ہی نہیں گئے ہیں اور لوگوں کیلئے پہاڑوں اور دشوار راستوں کا پیدل سفر جیسے مقدر بن گیا ہے اور صبح و شام کا یہ سفر روزمرہ کی زندگی کا معمول بنا ہوا ہے اور برفباری کے دوران ہزاروں لوگوں کی زندگی تھم سی جاتی ہے۔ سب ڈویژن بانہال سے بیس سے پنیس کلومیٹر دور وسع علاقے پر پھیلے تحصیل کھڑی کے سب سے بڑے طبیِ دارےپی ایچ سی کھڑی میں ماہر امراض خواتین ، بچوں کے ڈاکٹر سمیت ایکسرے، الٹراساونڈ اور جانچ کیلئے دیگر ضروری سہولیات موجود ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے دور پہاڑوں سے یہاں لائے جانے والے بیشتر مریضوں اور درد زہ میں مبتلا خواتین کو بانہال اور اننت ناگ کے ہسپتالوں میں منتقل کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہ جاتاہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ضلع رام بن کے باقی علاقوں کی طرح بھاری رقومات کی عدم ادائیگیوں کے بھنور میں پھنسے جل جیون مشن کے صاف پانی کا حصول کھڑی تحصیل کی درجنوں بستیوں کیلئے ابھی بھی ایک خواب بنا ہوا ہے اورایک ایک پنچایت میں کروڑوں روپئے کی لاگت والے جل جیون مشن کے کاموں سے لوگ نالاں ہیں ۔ تحصیل کھڑی کو یہ اعزاز حاصل ہےکہ یہاں سے سمبڑ تک ہندوستانی ریلوے کے سب سے لمبے ریلوے ٹنل سمیت کئی ریلوے ٹنلوں اور ریلوے سٹیشن کو تعمیر کیا گیا ہےلیکن ریلوے تعمیراتی ایجنسی ارکان انٹرنیشنل اور اس کی تعمیراتی کمپنیوں نے کارپوریٹ سوشل ریسپانسبیلٹی یا سی ایس آر کے تحت یہاں کی تعمیر و ترقی میں حصہ ادا کرنے کے بجائے یہاں کے ماحول کو ہی نقصان پہنچایا ہے اور تحصیل ہیڈکوارٹر کھڑی کو ناچلانہ سے جوڑنے والی رابطہ سڑک کے علاوہ کئی علاقوں کے راستوں اور پینے کے پانی کے چشموں کوہی تعمیراتی کمپنیوں نے تباہ کرکے کے رکھ چھوڑا ہے اور یہ تعمیراتی ایجنسیاں اب یہاں سے نکل بھی گئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مبینہ طور پر سرکاری حاکموں اور چند مقامی کھڑ پنچوں کی چھتر چھایا میں دو دہائیوں تک من مرضی کا مظاہرہ کرنے والی تعمیراتی کمپنیوں کی ان ناانصافیوں کی سزا آج بھی تحصیل کھڑی کے ہزاروں عام لوگوں کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناچلانہ ۔ کھڑی سڑک کو دو دہائیوں تک ریلوے تعمیراتی کمپنیوں نے اپنے استعمال میں لایا لیکن ہر بارش کے بعد یہ سڑک ہرنیہال کے مقام نکل اور دھنس جاتی ہےجس کی وجہ سے تحصیل کھڑی اور مہو منگت کے درجنوں دیہات منقطع ہو جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کھڑی کے عوام کی آواز یہاں کے پہاڑوں سے ٹکرانے کے بعد یہاں ہی دم توڑ جاتی ہے اور لوگوں کی فرہاد سننے کیلئے کوئی تیار ہی نہیں ہے۔