انتظامیہ کی طرف سے گزشتہ دنوں جنوبی اور وسطی کشمیرمیں سیلاب کا انتباہ جاری کرنے کے ساتھ ہی وادی ٔ کشمیر میں 2014سیلاب عظیم کی یاداشت سے لوگوں کے رونگٹھےکھڑے ہو گئے تاہم قدرت کی مہربانی سے تیسرے رو ز بارشوں کا سلسلہ رُک جانے سےدریائوں او ر ندی نالوں میں پانی کی سطح میں کسی حد تک کمی ہونے کے بہ سبب طغیانی کے خطرات فی الحال ٹل گئے۔تاہم جموں اور کشمیر میں ہوئے جانی نقصان پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔دریائے جہلم میں پانی کی سطح میں زبردست اُچھال سےشہر سرینگر کے مضافات میں لسجن کے مقام پر دریاکا پشتہ ڈھ جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔جسکی خبر پھیلتے ہی شہر سرینگر میں زبردست سنسنی پھیل گئی تھی اور متصلہ علاقوں میں بدحواستی کا عالم برپا ہونے لگا تھالیکن انتظامیہ نے فوراً حرکت میں آکر عوامی تعاون سے چوبیس گھنٹوں کی نگرانی کے دوران وقفے وقفے سے حالات کے تقاضوں کے مطابق پشتے کی مرمت کرکے ایک بڑے علاقہ کوزیر آب آنے سے بچالیا۔2014اور آج کی صورتحال میں ایک واضح فرق اُس وقت دیکھنے کا ملاجب سیلابی خطرے کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی ریاستی انتظامیہ نہ صرف خطرات کے حامل علاقوں میں فوری طو ر پر حرکت میں آگئی بلکہ ساری وادی میں مقامی انتظامیہ کو متحرک کرکے ایسی صورتحال قائم کی گئی جس سے عام لوگ خوف و ہراس میںمبتلاء ہونے سے بچ گئے۔ شہر کے مختلف علاقوں ،خاص کر اُن آبادیوں میں،جہاں2016کے سیلاب نے زبردست تباہی مچادی تھی، انتظامیہ نے قبل از وقت ایسے انتظامات کرکے رکھے تھے،جو خطرے کی صورت میں متاثرین کے انخلاء یا انکو امداد بہم پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے تھے،یہاں تک کی جگہ جگہ ٹرکوں میں کشتیاں لاد کر کسی بھی خطرناک صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار رکھی گئی تھیں۔ علاوہ ازیںریاستی گورنر نے بذات خودشہر کےایسے علاقوں کا دورہ کیا، جہاں صورتحال قدرے مخدوش تھی۔ اس سے انتظامی صیغوں میںایسا تحریک پیدا ہوگیا ،جو2014میںدیکھنے کو نہیں ملا تھا۔یہاں تک کہ شہر زیر آب آنے تک اُس وقت انتظامیہ خواب خرگوش میںتھی۔ آج انتظامیہ نے جس مستعدی کا مظاہرہ کیا ہے عوامی حلقوں میںاُس کی خوب سراہنا کی جارہی ہے۔ موجودہ صورتحال نے ایک اور اہم بات کو سامنے لایا ہے، جو نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ مستقبل کےلئے خطرات سے پُر ہے۔ 2014کے سیلاب کے بعدریاستی حکومت نے دریائے جہلم اور اس کے معاون دریائوں اور ندی نالوں میں ڈرجنگ کا منصوبہ تیار کرکے اس پر عملدرآمد بھی شروع کی تھی لیکن دو برس گزرنے کے بعدبھی صورتحال یہ ہے کہ صرف دو دنوں کی بارشوں سے سیلاب کے خطرات پیدا ہوگئے ۔ عوامی حلقوں کی جانب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ خزانہ عامرہ سے اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ایسی صورتحال کیوں پیدا ہورہی ہے؟۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ڈرجنگ کا سلسلہ کہیں مختلف طبقوں کے مالی مفادات کا وسیلہ تو نہیں بن گیا ہے؟، جس میں عوامی مفادات سرے سے ہی نظر انداز ہو رہے ہیں۔ کیا دریائوں اورندی نالوں کی کھدائی کے لئے مقرر کئے گئے اہداف پورے ہوئے ہیں ۔؟ موجودہ انتظامیہ کیلئے یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کی طرف سے یہ اُمید کی جارہی ہے کہ اس معاملے کو سرکار کی ترجیحات میں شامل کر کے سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کیلئے مکمل منصوبہ بندی کی جائے گی۔