موسم سرما نے میرے گائوں کے حُسن میں ایک بار پھر چار چاند لگائے دئے تھے ۔ برف کی ہلکی سی چادرنے ہر شے کو ڈھانپ لیا تھا اور اُس پر دھوپ کی سنہری کرنیں اُس منظر کو مزیدخوش گوار بنا رہی تھیں۔ ٹرین سے اُتر تے ہی اپنے بھاری بھرکم بیگ اُٹھاکراپنے گھر کی کا رُخ کرنے لگی ۔ایسا محسوس ہو رہاتھا جیسے یہ دل فریب سماں قدرت نے میرے ہی استقبال کے لئے باندھاتھا ۔ تین سال کے بعد میں گریجویشن مکمل کر کے خوشی خوشی اپنے گھر لوٹ رہی تھی۔راستے میںحاجی غلام محمد کے گھر کے سامنے سے گزر ی تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ گائوں کے لوگ جوق در جوق اُن کے گھر میں داخل ہورہے تھے۔اپنی بیس سالہ زندگی کے ہر دور میں، میں نے اِس گھر کوویرانیوں اور اداسیوں کے سائے میں لیٹا ہوا پایا تھا۔پھر آج اِس گھر میں یہ بہار کیسے آئی تھی ؟یا یہ کوئی ماتم داری تھی؟یا پھر میں ہی کوئی خواب دیکھ رہی تھی ؟
کیا اِن کے یہاں کوئی مر گیا ہے؟شاید سلمیٰ کے والدین میں سے کوئی انتقال کر گیا ہو گا۔ میرا ذہن اسی تذبذب میں مبتلا تھا کہ مجھے اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔جونہی پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرے بچپن کی سہیلی افشا کھڑی تھی۔علیک سلیک کے بعداُس نے میرا تذبذب بھانپتے ہوئے کہا’’گھبرائو نہیں! ایسی کوئی بات نہیں ہے، یہاں مرا کوئی نہیں ہے۔۔۔اِس گھرانے کو اب جاکے سکون کی ہوا میسر ہوئی ہے۔۔۔ دراصل اب اِن کو اپنی منزل مل چکی ہے۔۔۔‘‘ ۔ میرے حیرت میں مبتلا ذہن کو اِس گھر کا لاڑلا شاہد یادآیا ۔ ’’منزل ؟۔۔۔اِس گھر کو منزل مل گئی ؟یعنی اُن کا گمشدہ بیٹا اُنہیں مل گیا؟ ۔۔۔‘‘ میں نے افشا سے پوچھا۔
افشا مسکرائی اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اُس گھر کے اندر لے گئی۔ اُس نے میرا سامان عجلت میں کھینچ کر صحن میں ایک طرف رکھ دیا تو مجھے یہ خیال آیا کہ گھر پر سب میرے منتظر ہونگے مگر دل حاجی صاحب کواِس جد و جہد کے اختتام پر دیکھنے کا خواہش مند تھالہٰذا کوئی مزاحمت نہ کی۔ ہوا میں چائے کی بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی ۔ میں نے قیاس کر لیا کہ مہمانوں کی تواضع چائے سے کی جا رہی ہے۔
ہم دونوں کمرے کے دروازے پر کھڑی تھیں ۔ سامنے شاہد کی ماں خدیجہ پیالیوں میں چائے انڈیلتی نظر آئی ۔حاجی غلا م محمد کے چہرے پر سکون واطمینان کے بھول کِھل رہے تھے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار اُن کو اس طرح مطمئن دیکھا ۔اس چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے لوگوں میں میری نظریں اُس شخص کو ڈھونڈ رہی تھی جس کے باعث اُس گھر میں برسوں بعد رونق لوٹ آئی تھی ۔ میں کمرے میں بیٹھے لوگوں کے چہروں کا جائزہ لینے لگی ۔وہاں پر بیٹھے لگ بھگ ہر شخص کومیں جانتی تھی تو افشا سے پوچھنے لگی’’اِن کا بیٹا کہاںہے ؟‘‘
اِس سے پہلے کہ افشا میرے سوال کا جواب دیتی خدیجہ آنٹی مجھ سے کہنے لگی’’ تم ڈاکٹر صاحب کی بیٹی ہو نا ۔۔ ۔ ارے ہاں افشا بیٹی نے کہا تھا کہ تم آج شہر سے واپس آرہی ہو۔۔۔آئو اندرآئو ۔۔۔چائے پیو۔۔۔اب ہمارا دہائیوں پر محیط کرب ختم ہوا ۔۔۔‘‘اتنے میں دوسرے کمرے سے کسی لڑکی کے رونے کی آوازیں آنے لگی۔یقیناََ وہ سلمٰی تھی ۔خدیجہ آنٹی دوڑ کر اُس کمرے میںجاتے ہوئے کہنے لگی ’’یہ سلمٰی کی گائے بابرہ مر گئی ہے۔۔۔اِس لئے اِتنا چیخ رہی ہیں۔۔۔‘‘یہ جان کر بہت عجیب لگا کہ اب جب شاہد کی واپسی ہوئی ہے تو اُسی وقت اُس کی پسندیدہ گائے بھی فوت ہو گئی۔
غلام محمد ہمارے گائوںمیں صبر و مصابرت کی مثال مانے جاتے ۔ مسلسل بیس برس سے اپنے بیٹے شاہد کی تلاش میں دیوانوں کی مانند کبھی اِس کیمپ اور کبھی اُس تھانے سر گرداں رہے کہ کہیں سے تو شاہد کا سراغ مل جائے۔شاہد کی تلاش نے اگر چہ اُن کے جسم کو لاغر ونخیف کر دیا اوردل و گردوں کے مرض کے سامنے اُنہوں نے ہار مان لی لیکن اپنے اکلوتے بیٹے کو پانے کی اُمید کو اپنے دل و دماغ سے معدوم نہ ہونے دیا ۔ تب شاہد اٹھارہ برس کاشوخ اور شرارتی لڑکا تھا جب کریک ڈاون کے دوران ہزاروں لوگوں کے مجمعہ میں جیپ میں بیٹھے مخبر کے اشارے پر اُسے گرفتار کر لیا گیا۔ بابا کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اُسی دن شاہد کا نام گائوں کے اُن گمشد ہ افراد کی فہرست میںشامل ہوگیا کہ جن کی تلاش اُن کے والدین کا سرمایۂ حیات بن گیا ہے۔ اپنی بد نصیبی پرمسلسل آنسوں بہا نا اور ناسور بنے زخموںکو رِستے دیکھنا اُن کا مقدر بن گیا ۔ شاہدکی والدہ خدیجہ کا یہ جملہ ہمارے گائوں میں زبان زد عام ہے’’ہماری اُمید تب تک قائم ر ہے گی جب تک ہمیں ہمارے رب کی ذات پر اعتماد ہے۔۔۔ہم جستجوکی ہر حد پار کر کے دیکھیں گے۔۔۔ہمارا بیٹا ہمیں کبھی نہ کبھی ،کسی نہ کسی صورت ضرور ملے گا۔ ‘‘
ہمارے گائوں میںبعض لوگ اِس جملے کا سہارا اُس وقت لیتے ہیں جب اُنہیں کسی کو صبرسے کام لینے کی تلقین کرنی ہو ، حالانکہ ایسے بھی لوگ ہیں جو خدیجہ کے اِس جملے اوراِس گھرانے کی ثابتِ قدمی کو محض حماقت سمجھتے ہے۔ البتہ اُس ستم زدہ گھرانے پر یہ بات ظاہر کر کے اُن سے جینے کی آخری اُمید چھینا نہیں چاہتے تھے۔
شاہد کی اکلوتی بہن سلمٰی کے متعلق میں نے باباسے سُناہے کہ اپنے بھائی کی اچانک گمشد گی کی خبر اُس کے معصوم سے ذہن پر ایسے بجلی بن کر گری کہ وہ اپنا دماغی تواز کھو بیٹھی۔آج سے تین سال پہلے جب میں گریجویشن کے لئے شہر جانے کی تیاریوں میں لگی ہوئی تھی تو بازار میں اُس بد نصیب بہن سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اُس کی والدہ بھی اُس کے ساتھ ہی تھی اوروہ بار باربے حد معصومیت کے ساتھ اپنی والدہ سے کہہ رہی تھی’’اماں! بابرہ ٹھیک ہو جائے گی نا۔۔۔اگر اُسے کچھ ہو گیا تو بھائی مجھ سے بہت ناراض ہونگے۔‘‘جب میں نے اپنی دوست افشا سے پوچھا کہ یہ کس بابرہ کا ذکر کر رہی ہیںتو کہنے لگی ’’بے چاری پاگل ہے۔۔۔پاگلوں کی باتوں کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ۔۔۔‘‘ میرے اصرار کرنے پر اُس نے بتایا کہ وہ دن رات اپنی گائے کے ساتھ مست رہتی ہیں جو اُس کے گمشدہ بھائی کو بے حد عزیز تھی اور اُسی نے اُس کا نام بابرہ رکھا تھا۔
میری والدہ کا کہنا ہے کہ غلام محمدکوابواکثر سمجھانے کی کوشش کرتے تھے کہ وہ اِس طرح کی جستجوکو مقصدِزندگی بنا نا چھوڑ دے اورتلاش کی مشقت کم کر کے اپنی عمر کا پاس کریںلیکن اُن کے نزدیک ایسی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔
اب تین سال بعد اُس گھر کو دیکھا تھا جہاںبیس سالوں میںپہلی دفعہ سکون و اطمینان کے آثار نظر آئے ۔ آخر کارمیں افشا کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ کر اُسے گھرکے باہر لے آئی اور اُس سے پوچھنے لگی’’آخر معاملہ کیا ہے۔اِن کا بیٹا کہاں ہے؟۔۔۔وہ اِس کمرے میں کیوں نہیں بیٹھاہے؟‘‘
’’اُس کی قبر ملی ہے ۔۔۔وہ نہیں ۔۔۔اور گائوں کے لوگ تعزیت کرنے کے ساتھ ساتھ اِس گھرانے کواِن کے حوصلے اورفلاح کی مبارک بادی دے رہے ہیں۔ ‘‘افشا کے جواب نے میرے ہوش اُڑا دئے ۔ مجھے ہمیشہ اُس گھرانے سے ہمدردی رہی تھی مگر آج اُن کے غم پر پہلی بار میری آنکھوں میں آنسوں اُمڈ پڑے تھے۔ مجھے اُن کی زندگی کے بیس سالہ سفرِانتظارپر ترس آنے لگا ۔ مجھے اُن کے حالات کی ستم ظریفی پر ترس آنے لگا جس کے باعث ایک ماتم کی تصدیق اُن کے لئے سکون کی وجہ بن گئی۔
ہم دونوںواپس گھر کے اندر چلی آئیںاور خدیجہ چائے ہمارے سامنے رکھ کر باقی عورتوں سے گفتگو کر نے لگی’’بہن ! ہمیں ہماری منزل مل گئی ۔۔۔ہمارا انتظار توختم ہو چکا ہے۔ ۔ ۔اب افسوس صرف اِس بات کا ہے کہ میرے بیٹے کے ساتھ جو دوسرا فرد قبر میں دفن پایا گیا ہے ،اُس کے والدین بھی دیوانوںکی طرح اُس کا کہیں نہ کہیں انتظار کر رہے ہونگے ۔۔۔اور یہ تمنا کر رہے ہونگے کہ اے کاش! ہمیں ہمارے بیٹے کی لاش ہی مل جائے۔۔۔۔‘‘
���
طالبہ شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی،سرینگر