یہ بات ا ب چڑھتے سورج کی طرح یقینی ہوگئی ہے کہ ملک میں ای وی ایم مشینوں کے ذریعہ انتخابات میں دھاندلی کے امکانات ہمیشہ ممکن ہیں ،جس سے جمہوری ملک میں عوام الناس کی رائے غیر اہم ہوجا تی ہے اور مشینوں میں الٹ پھیر کے کرشمے ملک کے معزز شہریوں کے خوابوں کو چور کرسکتے ہیں ۔یہ وہ تلخ حقیقت ہے جسے آج کی تکنیکی دنیا عملی شکل میں ثابت بھی کرچکی ہے۔ای وی ایم میں فراڈکی پریکٹیکل شہادت پیش کرنے کی پاداش میں ہی حیدرآباد کے ہری پرشاد کو سلاخوں کے پیچھے کیا جاچکا ہے ۔ اسے کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ ای وی ایم کی کاکردگی پرہمیشہ سوالوں کے گھیرے میں رہی ہے ،مشینی انتخابات اسی زمانے سے عدالتوں کی دہلیز پر انصاف کیلئے گہار لگاتی رہی جب سب سے پہلے کیرلا میں 1982میں اس کااستعمال کیا گیا تھا۔بعد ازاںخود بی جے پی نے ہی ای وی ایم کی غیر جانبداری پر شبہات کا اظہار کیا تھااور بی جے پی کے دراز قامت سیاسی رہنما سبرامنیم سوامی نے ہی ای وی ایم کی کاکردگی پر تحفظات کے کیلئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا یا تھا۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ2010میں عدالت عظمیٰ میں ای وی ایم میں پرنٹ آؤٹ کی سہولت شامل کرانے کی اپیل بھی عدالت عظمی میں استغاثہ کی جانب سے کی گئی تھی ،جس سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے اگر چہ ای وی مشینوں سے ووٹنگ کو صحیح قرار دیا تھا ۔مگر استغاثہ کی اپیل کو مناسب اورجمہوریت کے لئے ضروری باور کرتے ہوئے انتخابی کمیشن اور حکومت ہند کو یدایت دی تھی کہ آئندہ انتخابات میں یہ نظم کیا جائے کہ ای وی ایم مشینوںمیں پرنٹ آؤٹ کی سہولت دستیاب ہو۔تاکہ رائے دہندگان اپنا جمہوری حق استعمال کرنے کے بعدیہ اطمینان کرلیں کہ انہوں اپنا ووٹ جس امیدوار کو دیا ہے، وہ ووٹ اسی کے کھاتے میں گیا ہے اور رائے شما ری کے وقت اگر کوئی تنازعہ پیدا ہوتو ایسی صورت میں پرنٹ آؤ ٹ کی روشنی میں یہ پتہ لگا یا جاسکے کہ تنازعہ کی حقیقت کیا ہے۔مشین میں کوئی دھاندلی کی گئی ہے یا نہیں۔ 2010 میں ہی بی جے پی لیڈر جی وی ایل نرسمہا راؤ کی کتاب ’’ڈیموکریسی ایٹ رسک کین وی ٹرسٹ الیکٹرانک ووٹنگ مشین؟‘‘ آئی تھی۔ اس کتاب کا دیباچہ یا تعارف جو بھی کہہ لیں اسے وزیر اعظم کے سیاسی گرو لال کرشن اڈوانی نے ہی لکھا ہے۔اپنی تحریر میں مسٹر ایل کے اڈوانی نے لکھا تھاکہ ’’ٹیکنالوجی کے نقطہ نظر سے میں جرمنی کو سب سے زیادہ اعلی درجے کا ملک سمجھتا ہوں۔ وہ بھی وی ایم کے استعمال پر پابندی لگا چکا ہے۔ آج امریکہ کے 50 میں سے 32 صوبہ جات میں ای وی ایم پرپابندی عائدہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہمارا الیکشن کمیشن بھی ایسا کرتا ہے، تو اس سے جمہوریت اور زیادہ مضبوط ہو گی‘‘۔مگر نہ جانے کس مصلحت کے تحت اقتدار ملنے کے بعد اسی بی جے پی نے عدالت عظمیٰ کی اس ہدایت اور اپنے ہی بڑے قائد کی تشویش پرکوئی توجہ نہیں دی اور اسکے بعد جو واقعات سامنے آرہے ہیں ظاہر سی بات ہے کہ اس کیلئے مرکزی حکومت اور نتخابی کمیشن دونوں کو ہی ذمہ داری لینی ہوگی ۔اگر مذکورہ جمہوری اداروں نے عدالت عظمیٰ کی ہدایات کا احترام کرتے ہوئے ووٹنگ مشین میں سہولیات کا نظم کیا ہوتا تو یقینا آج اسمبلی انتخابات کے نتائج نے جو ہنگامہ برپا کر رکھا ہے،ان تنازعوں اور دھینگا مشتی سے ملک کو دوچار نہیں ہونا پڑتا۔بہر حال حالیہ نتائج میں پسپائی سے دوچار جماعتوں نے جن شبہات کا اظہار کیا ہے ،اسے نظر انداز کرنے کی کوئی آ ئینی وجہ بھی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔مگر ملک کے باوقار انتخابی کمیشن کی جانب سے جس الزام کو یکسر مسترد کردیا گیا ہے ، اسے بھی آپ مناسب نہیںکہا جاسکتااور ملک کی جمہوری روح کیلئے کیلئے یہ تردید مثبت پیغام دستیاب نہیں کراسکے گی ،اس لئے کہ اگر شبہات ظاہر کرنے والے فریق کے الزامات بے بنیاد ہیں تو انتخابی کمیشن الزامات کو بغیر کسی دلیل کے مسترد کرنے کی بجائے یہ کہ سکتا تھا کہ ہماری کارکردگی بالکل آ ئینہ کی طرح صاف ہے ۔آپ آئی ٹی ماہرین کو لے کر کسی عوامی میدان بیٹھئے ۔ہم وہیں پر مشین کھول کر یہ دکھا دین گے کہ ہمارا یہ نظام کسی بھی قسم کی دھاندلی اور شبہات سے صد فیصد منزہ اور پاک ہے۔مگر یہ مناسب رویہ اختیار کرنے کی بجائے کسی لیڈر کے الزام کو یکسر مسترد کردینا جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ کرکٹ جیسے کھیل میں امپائر کے فیصلے کو جانچنے پرکھنے کیلئے رکارڈنگ وغیر کو باربار روک کر ،ڈسپلے کی رفتار دھیمی کرکے اور اطلاعاتی آلات کا صحیح استعمال کرکے امپائر کو صحیح فیصلہ لینے میں مدد پہنچائی جا تی ہے۔اگر کرکٹ جیسے غیر ضروری کھیل میں اس قسم کے ضابطہ کا انتظام ہے تو انتخابات جیسے اہم معاملے میں جس میں ملک یا مملکت کے رائے دہندگان کم ازکم 5برس کیلئے کسی نمائندہ کی مٹھی میں اپنی تقدیرڈال رہے ہیں،اس معاملے رائے دہندگان کو یہ یقینی بنانے کا حق کیوں نہیں ملنا چاہئے کہ اس نے اپنی قسمت اپنے پسندید ہ امیدوار کی مٹھی میں ہی دی ہے۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس بار اتر پردیش اور دیگر ریاستوں میں جو انتخابات ہوئے ہیں،ان میں غیر بھگوا پارٹی کے انتشار نے سیکولر ووٹوں کیلئے جوتی میں دال بانٹنے والی کیفیت پیدا کردی تھی ،یہ نتیجہ سیکولر لیڈروں کی ناعاقبت اندیشی اور نا اہلی کا ثبوت بھی فراہم کررہی ہے،جس کی وجہ سے ہی بی جے پی اس قدر حیران کن کامیابی حاصل کرسکی ہے۔یوپی انتخابات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیاجارہا ہے کہ بی جے پی نے یہاں تک کہ مغربی اترپردیش کے مسلم اکثریتی حلقوں سے بھی ووٹوں کی تقسیم کے سبب تاریخی فائدہ حاصل کیاہے،جس کی کوئی نظیر ماضی میں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔
بی جے پی کو بہوجن سماج وادی پارٹی،سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے درمیان اتحاد نہ ہونے کا راست فائدہ ملا ہے اور یہ بات حقیقتاً عملی شکل میں مغربی اترپردیش میں ثابت بھی ہوئی ہے، جہاں پر مسلم رائے دہندگان کی بڑی تعداد موجودہے، وہیں مسلم ووٹوں کی تقسیم کے سبب بی جے پی کو بڑا فائدہ حاصل ہوا۔معروف انگریزی روزنامہ’’دی ہندو میں شائع خبر کے مطابق دودرجن سے زائد اسمبلی حلقوں میں مسلم ووٹوں کی تقسیم کے سبب بی جے پی کو راست فائدہ پہنچا ہے۔تجزیہ نگاروں کے قیاس اور تحقیقات اپنی جگہ ،مگر یہ سوال پھر بھی برقراررہتا ہے کہ اگر انتخابی کمیشن اپنے دعوے میں صد فیصد حق بجانب ہے تو اسے الزام لگانے والے فریق کو غلط ثابت کرنے کیلئے شفافیت کے ساتھ عملی طور پر اپنے دعوے کو مدلل طریقے سے عوام کے سامنے پیش کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ہم یہاں ہری سنگھ جیسے آئی ٹی ایکسپرٹ کے عملی ثبوت کی جانب بھی انتخابی کمیشن کی توجہ مبذول کرانا مناسب سمجھتے ہیں جس نے میڈیا سامنے عملی شکل میں یہ ثبوت پیش کیا تھا کہ اس طرح سے ای وی ایم میں دھاندلی کی جاسکتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ایک تلخ سچائی کی سزاہری پرشاد کو یہ ملی کہ اسے گرفتار کرلیا گیا اور آج اسے انصاف دلانے کیلئے آئینی بالادستی کی دہائی دینے والا کوئی ادارہ یا فریق سامنے آنے کی ہمت نہیں کررہا ہے۔
رابطہ 09911587378