سرینگر//انتخابات کے دوران گاڑیوں کو کرایہ پر حاصل کرنے اور رقوامات کی ادائیگی میں مبینہ بے ضابطگیوں اور بے قاعدگی کا انکشاف ہوا ہے۔چنائو کے دوران جن نمبرات کے تحت بسوں،ٹرکوں اور چھوٹی گاڑیوں کو دکھا کر 4کروڑ روپے زائد رقم ادا کی گئی، تحقیقات کے دوران اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ ، وہ اسکوٹر،موٹر سائیکل،چھوٹی کاریں،ٹریکٹر اوربلڈوزر کے بطور درج ہیں،جبکہ ایک کروڑ52لاکھ روپے کی ادا شدہ رقم مشکوک ثابت ہوئی ہے۔ سرکاری محکموں کے حساب جات اور کھاتوں کے جانچ کرنے والے مرکزی ادارے آڈیٹر اینڈ کمپٹولر جنرل نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اپریل2014اور مارچ2015کے دوران حکومت ہند نے ریاستی پولیس کے اہلکاروں کی نقل و حرکت اور گاڑیاں کرایہ پر لینے کیلئے115کروڑ76لاکھ روپے کی رقم فراہم کی،جس میں سے پارلیمانی انتخابات کیلئے 39کروڑ 18لاکھ، جبکہ اسمبلی انتخابات کیلئے76کروڑ58لاکھ روپے کی رقم شامل تھی،جن میں سے 111 کروڑ 70لاکھ روپے کی رقم محکمہ پولیس کے68’’ڈی ڈی ائوز‘‘ نے گاڑیوں کو کرائیوں پر حاصل کرنے،پیٹرول کی خریداری،تیل و لیبورکنٹ پر خرچ کئے۔ کیگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں کے4 اور کشمیر کے5 ایس ایس پی افسران کے ڈی ڈی ائوز کے ریکاڑ کی جانچ کے دوران یہ پایا گیا کہ پولیس ہیڈ کوارٹر نے مارچ2014 اور اکتوبر2014 میں’’ ڈی ڈیٰ ائوز ‘‘کو ہدایات جاری کیں کہ وہ’’کوڈل ضوابط‘‘ پر عمل درآمد کرکے سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن سے 20فیصد رعایت لیکر گاڑیوں کو کرایہ پر حاصل کریں۔ان ہدایات کو مد نظر رکھتے ہوئے’’ڈی ڈی ائوز‘‘ نے ٹرانسپورٹ اور ٹراول ایجنسیوں سے’’ کوڈل ضوابط‘‘ کو بالائے طاق رکھ کر اور ان گاڑیوں کے دستاویزات کی جانچ کئے بغیر گاڑیوں کو کرایہ پر حاصل کیا۔کیگ رپورٹ میں کہا گیا ہے’’آڈٹ کے دوران5کروڑ87لاکھ روپے کی واضح بے قاعدگی،مشتبہ بے ضابطگی اور بے قاعدہ ادائیگی کی نشاندہی ہوئی،جبکہ اس دوران جموں میں4اور کشمیر میں6’’ڈی ڈی ائوز‘‘ کے علاوہ ریجنل ٹرانسپورٹ افسراں کے علاوہ اکونٹنٹ جنرل آڈیٹ جموں وکشمیر میں دستیاب رسید و ادائیگی ریکارڑ کو بھی آپس میں ملاکر جانچ کی گئی‘‘۔رپورٹ کے مطابق محکمہ پولیس کے9ڈی ڈٰی ائوز نے8ہزار983گاڑیاں11مارچ اور20مئی2014کے درمیان مختلف ٹرانسپورٹ و ٹراول ایجنسیوں سے پارلیمنٹ الیکشن جبکہ31اکتوبرسے لیکر29دسمبر2014تک اسمبلی انتخابات کے دوران کرایہ پر حاصل کیں،جن میں سے625گاڑیاں جنہیں انتخابات کے دوران الیکشن ڈیوٹی پر تعینات دکھایا گیا، ریجنل ٹرانسپورٹ دفتر میں تسلیم شدہ گاڑیوں کی تفصیلات اور نوعیت سے میل نہیں کھاتی۔رپورٹ کے مطابق’’625گاڑیاں جن 189بسیں،129ٹرکیں،درمیانہ درجے کی95اور چھوٹی212گاڑیاں کانسٹبلوں کی نقل و حرکت کیلئے تعینات دکھا یا گیا ہے،اصل میں ریجنل ٹرانسپورٹ دفتروں میں بطور چیتک بجاج،ویساپا اسکوٹر،اکیٹوا اور موٹر سائیکل جن میں پیشن،بلیٹ اور ہیرو ہونڈا شامل ہیں،کے بطور درج ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں ٹراول و ٹرانسپورٹ ایجنسیوں کو3کروڑ99لاکھ روپے کی رقم ادا کی گئی ۔رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ4ڈی ڈی ائوز کی طرف سے8 گاڑیوں ،جن میں مختلف ٹراول و ٹرانسپورٹ ایجنسیوں سے ایک میٹا ڈار،2بسیں،ایک ٹرک اور4ٹیکسیز کرایہ پر حاصل کر کے ریکارڑ میں درج کی گئے، حقیقت میں متعلقہ آر ٹی ائوز میں بطور سرکاری گاڑیاں درج ہیں،اور ڈی ڈی ائوز نے ان ٹراول و ٹرانسپورٹ ایجنسیوں کو5لاکھ روپے کا کرایہ ادا کیا۔رپورٹ میں مزید اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ایس ایس پی پولیس کنٹرول روم جموں نے3نومبر اور27دسمبر2014کے درمیان اسمبلی انتخابات کیلئے23گاڑیاں کرایہ پر حاصل کیں،اور مارچ2015میں ٹرانسپورٹ و ٹراول ایجنسیوں کو اس سلسلے میں رسید نمبر14محرریکم جنوری2015کو7لاکھ24ہزار روپے کی رقم ادا کی گئی۔کیگ رپورٹ کے مطابق جانچ پڑتال کے دورن معلوم ہوا کہ23میں سے20گاڑیوں کو پھر سے16سے24دسمبر2014کے درمیان کرایہ پر حاصل کرنے کیلئے ریکارڈمیں دکھا یا گیا،اور رسید نمبر15محرر یکم جنوری2015 کے تحت ایک لاکھ40ہزار روپے کی رقم ادا کی گئی،جبکہ ان گاڑیوں کا رسید نمبر14کے تحت پہلے ہی کرایہ دا کیا گیا تھا،اور اس طرح ٹرانسپورٹ ایجنسی کو ایک لاکھ40ہزار روپے کی اضافی رقم فراہم کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق’’بانڈی پورہ اور بارہمولہ کے2ایس ایس پی افسران نے17جون2014اور30مارچ2015 کے درمیان محکمہ کی طرف سے از خودد مرتب کی گئی فہرست کی بنیادوں پر ایک کروڑ5لاکھ روپے کی رقم کرایہ کے بطور واگزارکیں ،جبکہ ایس ایس پی بانڈی پورہ نے4 ٹرانسپورٹ و ٹراول ایجنسیوں کی طرف سے پیش کی گئی47لاکھ روپے کی بل کو منظوری دی،اور اس دوران کرایہ پر لی گئی گاڑیوں کی کوئی تفصیلات نہیں تھی۔ رپورٹ میںاس سلسلے میں مزید کہا گیا ہے’’ حساب کے جانچ کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ86غیر مسافر و مال بردار گاڑیوں کے علاوہ نجی گاڑیوں کوجموں،کھٹوعہ،سانبہ کے ایس ایس پی و افسران کے علاوہ سرینگر و جموں کے پولیس کنٹرول روم میں تعینات ایس ایس پی و افسران نے کرایہ پر حاصل کیا،اور ان گاڑیوں کو30لاکھ روپے کی رقم بطور کرایہ ادا کی گئی۔اکتوبر2016میں اس سلسلے میں حکومت نے کہا’’ان بے ضابطگیوں کو محکمہ خزانہ کو منتقل کیا گیا ہے،تاکہ تفصیلی آڈٹ کیا جائے‘‘۔