سرینگر//پردیش کانگریس کے سابق صدر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے اترپردیش ریاست میں انتخابی نتائج اور وہاں فسطائی طاقتوں کو اقتدار ملنے پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اس صورتحال نے سیکولر اور جمہوری نظریہ کو خطرے میں ڈال دیا ہے تاہم اس صورتحال میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کی دانستہ یا نادانستہ خاموشی بھی ایک اہل رول کرنے کا موجب بنا ہے ۔پروفیسر سوز نے کہاکہ ’’اب اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ مرکزی سطح پر برسر اقتدار جماعت بڑی سنجیدگی سے ہندوستان کو ایک ہندو سٹیٹ بنانے کیلئے سرگرم عمل ہے۔ وزیر اعظم مودی اور انکے قریبی ساتھی امیت شاہ نے اترپردیش اور اترا کھنڈ میں برا ہ راست ہندوتوا فلسفے کا پرچار کیا جو اترپردیش اور اتراکھنڈ میں انتخابات کے آخری دنوںمیں ایسی صورت اختیار کر گیا جیسے تمام تر ترقی (وکا س) ہندو لفظ اور ہندوتو کے فوارے سے ہی پھوٹتا ہو!جب سے ہندوستا ن میں بی جے پی کی موجودہ حکومت براجمان ہو گئی ،تب سے ہی دھیرے دھیرے الیکشن کمیشن آف انڈیا قانون اور آئین کے تحت ، اپنے فرائض کی انجام دہی میں ڈھیلا پڑ گیا اور اترپردیش اور اتراکھنڈ کے حالیہ الیکشن میں ایسا لگتا تھا جیسے الیکشن کمیشن کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ہندوتو کے فلسفے کو اجاگر کرنے کیلئے چاہے بی جے پی کے کارکن اپنے بیانات میں کسی بھی حد تک گئے الیکشن کمیشن نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اسی لئے وزیر اعظم مودی ، امیت شاہ، ادتیاناتھ اور ساکھشی مہاراج جیسے لوگ ہندوتو کے پرچار میں جو کچھ بولنا چاہتے تھے وہ بلا دریغ بولتے گئے اور الیکشن کمیشن آف انڈیا ٹس سے مس بھی نہ ہوا۔انہوں نے کہاکہ جب وزیر اعظم مودی نے خود شمشان اور قبرستان کی تشریح کی تو اس کے بعد بی جے پی کے ادتیا ناتھ اور ساکھشی مہاراج جیسے لوگ ہر قسم کی بندھن سے آزاد ہو گئے ۔ جب ساکھشی مہاراج نے بلا لحاظ مذمت و ملت سب کو جلانے کی بات کی اور یہ کہا کہ قبرستانوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور الیکشن کمیشن نے کوئی نوٹس نہیں لیا تو گویا ملک کے آئین اور قانون کی کوئی اہمیت نہ رہی ۔ اب، اس کے برعکس ہندوستان میں سیول سوسائٹی اور سماج کے مختلف طبقے ناراضگی اظہار کرنے لگے ہیں اور یہ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ہندوستان کو باقاعدہ ہندو ریاست بنانے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ورنہ ادتیا ناتھ جیسے ہندو فرقہ پرست لیڈر ،جس نے گورکھپور سے ہی فرقہ پرستانہ تشدد کی ایک مہم چلائی تھی اور پارلیمنٹ میں بھی ان کی تقریریں کافی حد تک قابل اعتراض تھیں، اُس جیسے ہندو لیڈر کو اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ نہیں بنایا جا سکتا تھا اور اتراکھنڈ میں آر ایس ایس کے پرچارک کو وزیر اعلیٰ بناکر گویا فرقہ پرستی کا یہ دائرہ مکمل ہو گیا !ہندوستانی سیول سوسائٹی اور سماج کے مختلف طبقوں کی ناراضگی کو اب گویا ٹیلی ویژن چنلوں اور اخباروں کے ذریعے زبان مل رہی ہے۔اور اس لحاظ سے ہندوستان کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا قابل ستائش ہیں۔ جنوبی ہندوستان میں فرقہ پرستی کے خلاف سماج کے مختلف طبقو ں میں کافی ناراضگی ہے اور یہ نعرہ ’سب کا وکاس، سب کا ساتھ‘ کھوکھلا نعرہ ثابت ہو گیا ہے اور عوامی ناراضگی کو ’ہندو‘ جیسے اخبارات اور ’فرنٹ لائن ‘ جیسے میگزین ترجمانی کر رہے ہیں۔ادتیا ناتھ نے گورکھپور پیٹھ سے ہی منافرت اور تشدد کی لہر کو اسی دن سے جنم دیا تھا جس دن وہ پارلیمنٹ کیلئے پہلی بار منتخب ہو گئے تھے اور ان کی فرقہ پرستانہ کارستانیوں کی وجہ سے انکے خلاف کئی بار ایف آئی آر بھی درج کئے گئے تھے جس کا الیکشن کمیشن نے کوئی نوٹس نہیں لیا ۔اب بی جے پی نے ادتیا ناتھ کو ہی اترپردیش کا چیف منسٹر بناکر پورے ہندوستان کو حیران کر دیا ہے!ــ‘۔