جنگ دو فریقوں، قبیلوں، قوموں یا ملکوں کے درمیان تنازعے کے نتیجے میں ہونے والے تصادم کو کہا جاتا ہے۔ جنگ کی بھی کئی اقسام ہیں۔ جنگ گرم بھی ہوتی ہے اور سرد جنگ بھی۔ گرم جنگوں کے دوران متحارب فریق، قبائل، قوموں یا ملکوں کی مسلح افواج اپنے ملک و قوم کے دفاع کے لیے آگے آتے ہیں اور اپنی قوم کو آنے والے خطرات سے بچاتے ہیں ۔جنگ ایسی چیز ہے جس میں ہتھیار قلم کی جگہ لے لیتے ہیں اور جس کا نتیجہ صرف خون خرابہ ہوتا ہے۔ جنگ کو ہم سیاسی حصول اور سفارتی مقاصد کو حاصل کرنا بھی کہہ سکتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگوں کے نتیجے میں بے دریغ انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے، لاکھوں افراد مارے جاتے ہیں، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجاتے ہیں۔ملکوں میں قحط پیدا ہو جاتا ہے اور صدیوں تک پسماندگی اُن کا مقدر بن جاتی ہے۔جنگ میں فتح جس کسی کی بھی ہو،ہر جگہ نقصان انسانیت کا ہی ہوتا ہے۔
دنیا اس سے پہلے دو عظیم جنگوں کو جھیل چکی ہے ،جن کے مضر اثرات آج بھی کئی ملکوں کو جنگ کے نام سے تھرا دیتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں تین کروڑ اور دوسری جنگ عظیم میں چھ کروڑ لوگ مارے گئے تھے یعنی بیسویں صدی میں نو کروڑ کی آبادی کا صفایا ہو گیا تھا۔ جن ملکوں نے ان جنگوں میں حصہ لیا تھا، وہ آج ایک ہو گئے ہیں اوراپنے اپنے جنگی جھنڈے ہمیشہ کے لئے جھکا چکے ہیں ۔آج سب سے زیادہ قوم پرستی دنیا کے سب سے زیادہ غریب حصے میں زندہ ہے جس کا نام جنوبی ایشیا ہے۔ اس حصے کے سامنے بہت سارے ضروری جنگوں کے میدان ہیں جیسے بھوک، بیماری، سماجی عدم توازن ، معاشی نابرابری ، جہالت، ناخواندگی، بے ر وزگاری وغیرہ لیکن بر صغیر ہند و پاک کوئی اور ہی لڑائی لڑ رہے ہیں ،یہ دونوں ملک خود کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کے فراق میں ہیں ۔اگر یہ دونوں ملک حقیقت میں اس آگ میں کود گئے تو پھراب کی یہ جنگ نہ رُکنے والی جنگ ہوسکتی ہے ،کیونکہ اس جنگ میں متاثر ہونے والے دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں ۔ ان کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا اور اگر اللہ نہ کرے یہ ہواتو بہت بڑی ناقابل تلافی تباہی وبربادی کا موجب بنے گا۔ ایٹمی ہتھیاروں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے سامنے کون ہے، وہ تو صرف تباہی پھیلاتے ہیں اور صدیوں تک ان تباہیوں کے بال وپر پھیل جاتے ہیں، ایٹم بم امن قائم نہیں کرتے۔خدا نخواستہ اگر ایک ہمسایہ ملک دوسرے ملک پر ایٹمی حملہ کرے توکیا اس کے ایٹمی حملے کی تابکاری کے اثرات سے خود اس کا اپنا ملک محفوظ رہ سکتا ہے؟ کیا ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے اطراف و اکناف کی فضا کی زندہ مثال دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے؟
امریکی سائنس دان آئن سٹائن نے امریکہ کے ایٹمی پروگرام پر کام کیاتھا ،دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ جناب! تیسری جنگ عظیم کیسی ہو گی؟ آئن سٹائن نے جواب دیا کہ تیسری جنگ عظیم کا مجھے پتہ نہیں لیکن چوتھی جنگ عظیم تلواروں اور ڈنڈوں سے ہوگی ۔آئن سٹائن کے اس جواب میں ایک بہت بڑی بات پوشیدہ ہے کہ شاید وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تیسری جنگ عظیم بہت بڑی تباہی لائے گی جس میں دنیا کے ایٹم بم رکھنے والے ممالک ایٹم بم کا استعمال کر سکتے ہیں اور یہی ایٹمی ہتھیار کئی ملکوں کا جغرافیہ بگاڑنے کا موجب بن سکتے ہیں اور وہ ایسی بربادیوں کی دھول میں اَٹ جائیں گے کہ پھر ان کے پاس علم ہوگا نہ فن ، سائنس ہوگی نہ جنگ لڑنے کے سازوسامان۔ اس لئے وہ لاٹھیوں سے آپس میں لڑیں گے۔
آج کل ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک میں امریکہ، برطانیہ، روس، ہندوستان، چین، پاکستان، شمالی کوریا، ایران اوراسرائیل قابل ذکر ہیں، جب کہ کئی ممالک اس کے حصول کے لئے تگ و دَو کر رہے ہیں۔ امریکہ نے عراق اورافغانستان پر جنگ مسلط کی جس میں اس نے اپنے ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا۔ جب کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ کرنے کے لئے کوئی بہانہ تلاش کر رہا ہے۔ دوسری طرف ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کو کھلم کھلا جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تیسری طرف امریکہ چین کے لئے سازش کررہا ہے۔ جب کہ امریکہ پاکستان کی مدد سے روس کے ٹکڑے ٹکڑے کر چکا ہے۔ امریکہ کی نظر اب ایران کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، چین، ہندوستان اور پاکستان پر بھی ہے۔ خدانخواستہ اس نے ہندوستان اور پاکستان کو لڑوا دیا تو ایک ایسی جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے جس کی زد میں ہندوستان پاکستان، ایران، چین، اسرائیل اور کئی چھوٹے ہمسایہ ملک آ سکتے ہیں ۔اس سے ایک بہت بڑی عالمگیر جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے جو خدانخواستہ دوسری جنگ عظیم سے بھی کئی ہزار گنابڑی تباہی لا سکتی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ یہ دونوں ممالک بالترتیب چودہ اور پندرہ اگست1947ء کو آزاد ملکوں کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے۔ برطانیہ کے زیر تسلط برصغیر کو ہندو مسلم آبادی کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی شرط پر آزاد کیا گیا تھا۔ ہندوستان جس میں ہندو اکثریتی قوم تھی، ایک سیکولر ریاست بھارت قرار پایا، جب کہ مسلم اکثریتی پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان ریاست کا نام دیا گیا۔ آزادی کے وقت سے ہی دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کا عزم ظاہرکیاتھامگر بیرونی سازشوں کی وجہ سے ہندو مسلم فسادات اور کشمیر تنازعے کی وجہ سے دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات دیکھنے کو نہیں ملے۔ آزادی کے وقت سے اب تک دونوں ممالک چار بڑی لڑائیوں، جب کہ اَن گنت سرحدی جھڑپوں میں ملوث رہ چکے ہیں۔ ہند پاک جنگ 1971ء ( جنگ آزادیٔ بنگلہ دیش) کے علاوہ تمام جنگوں اور سرحدی کشیدگیوں کامحرک کشمیر رہا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھی بہت ساری کوششیں کی گئیں جن میں تاشقند ، شملہ آگرہ اور لاہور کے سربراہی اجلاس بھی شامل ہیں۔ 1980ء کی دہائی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان صرف بگاڑ اور تناؤدیکھا گیا ہے۔ اس بگاڑ اور تناؤ کا سبب سیاچن کا تنازعہ، 1989ء میں کشمیر میں بڑھتی کشیدہ صورت حال، 1998ء میں پاکستانی اور ہندوستانی تجرباتی ایٹمی دھماکے اور 1999ء کی کرگل جنگ کو سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے 2003ء میں جنگ بندی کا معاہدہ اور سرحد پار بس سروس کا آغاز کیا گیا مگر تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تمام کوششیں پے در پے رونما ہونے والے عسکری واقعات کی نذر ہوتی گئیں۔ ان میں 2001ء میں ہندوستان کی پارلیمنٹ عمارت پر حملہ، 2007ء میں ’’سمجھوتہ ایکسپریس ‘‘ٹرین کا دھماکہ اور 26 نومبر 2008ء ممبئی میں دہشت گردی جیسی کاروائیاں شامل ہیں۔ 2001ء میں ہونے والے پارلیمنٹ پر حملے نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا سا سماں پیدا کر دیا تھا۔ 2007ء میں ’’سمجھوتہ ایکسپریس ‘‘ٹرین پر حملے سے تقریبا 68 افراد مارے گئے ۔ 2008ء کے ممبئی حملے، 2016کے پٹھان کوٹ اور اُوڑی حملے جن کو دہشت گردی کی بھیانک کارروائیوں کے طور مانا جاتا ہے ۔ ان واقعات نے دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں اہم رول کیا۔ اب 14؍فروری 2019ء کا لیتہ پورہ پلوامہ حملہ جس میں سی آر پی ایف کے بہت سارے جوان کام آ گئے۔ ا س سانحہ نے جلتی پر تیل کاکام کیا اور دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ جنگ آزمائی میں دیکھے جارہے ہیں ۔
ان واقعات نے ہند پاک کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جس کے نتیجے میں ہندوستان نے پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوہ کے بالا کوٹ سیکٹر میں گھس کر ائر سٹرائیک کیا اور دعویٰ کیا ہے کہ جیش کا پورا کیمپ نیست و نابود کر دیا گیاہے لیکن پاکستان اس دعوے کو رد کر رہا ہے۔دونوں ممالک کی سرحدوں پہ کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے ،دونوں ممالک ایک دوسرے کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں پونچھ، راجوری، اکھنور، جموں، اوڑی، پنجاب اور راجستھان کی سرحدوں پر حالات کشیدہ ہیں ۔دونوں طرف سے گولہ باری بدستور جاری ہے۔ سرحدوں کے نزدیک رہنے والے لوگ در بدرپھر رہے ہیں، کئی زخمی ہیں اور کئی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جانیں گنواتے جا رہے ہیں۔ دونوں ملک آمنے سامنے کھڑے ہیں اور اگر دوونوں جانب صبر وتحمل سے کام نہ لیا گیا تو جنگ کبھی بھی پھوٹ سکتی ہے۔ ان دونوں ملکوں کو جاپان سے سبق لینا چاہیے جس نے 71سال پہلے ایٹمی جنگ کی تباہ کاریاں جھیل لی تھیں اور آج تک اس جنگ کے نقصانات سے باہر نہیں نکل سکا۔ اس کے دو شہر ہیروشیما اور ناگاساکی کچھ منٹوں میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے تھے اور آج بھی ریڈی اییشنز کا اثران شہروں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔اس ایٹمی حملے میںڈھائی لاکھ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ اگر آج سے 71 سال پہلے ایٹم بم نے اتنی تباہی مچائی تھی تو آج ہندوستان اور پاکستان بھی دوہمسایہ ایٹمی ملک ہیں اوروہ بھی زیادہ تباہ کن ۔خدانخواستہ اگر ان دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ شروع ہو گئی، تو سوچئے نتائج کیا ہوںگے ؟نہ صرف ان دونوں ملکوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے یہ جنگ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوگی۔ امریکی تنظیم’’ انٹرنیشنل فیزیشن فار دی پریوینشن آف نیوکلیئر وار‘‘ کی رپورٹ کے مطابق اس منحوس جنگ سے سیدھے طور دو کروڑ سے زیادہ لوگوں کی موت واقع ہوگی ، دو ارب لوگ بھوک مری کا شکار ہوں گے ،دنیا کی آدھی اوزون پرت ( Layer Ozone ) بھی ختم ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں مون سون پہ بھی بہت بُرا اثر پڑے گا، کھیتیاںبرباد ہو جائیں گی۔
رابطہ 9622080799
بقیہ سنیچر کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں