سرینگر// پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے تجر شریف سوپور بیاہ کر لائی گئی شیریں کیلئے کشمیر ایک زندہ قبرستان ہے ۔دکھوں پریشانیوں اور غموں میں گھری یہ خاتون ان سینکڑوں خواتین کےلئے آواز بلند کر رہی ہے جو اس کے ساتھ سرحد پار سے یہاں لائی گئیں ۔یہ تمام خواتین ہر گزرتے دن کے ساتھ ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو کر صرف یہی کہتی ہیں کہ کشمیر میں آکر ان کی رہائش پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے ۔وہ کہتی ہیں ” فریاد کریں تو کس سے ،کچھ کے ماں باپ مر گئے لیکن ہمیں اپنے وطن جانے کی اجازت نہیں ،کچھ کے بیمار والدین بستر مرگ پر ہیں، انہیں دیکھنے کی اجازت نہیں۔“ شیریںکاکہناہے کہ ان کا گناہ کیاہے جو انہیں واپس جانے سے روکاجارہاہے ۔انہوںنے کہاکہ ہمیں روکنے سے کیا مل رہا ہے ،ملکوں کے فیصلے اس سے حل نہیں ہوں گے ۔شیریں کہتی ہیں کہ جب وہ باز آباد کاری پالیسی کے تحت کشمیر آئی تو انہیں لگا تھا کہ اُن کا بھلا ہو گا اور اُن کے ساتھ آنے والی سو سے زیادہ خواتین بھی یہاں خوشی سے رہیں گی لیکن یہاں ہم زندہ لاشیں بن چکی ہیں اورکوئی فریاد سننے والا نہیں ۔شیریں سرحد پار سے یہاں آئی ان خواتین کی آواز بن کر ایک پلیٹ فارم پر جاتی ہیں تاکہ انہیں انصاف مل سکے لیکن انصاف تو دور کی بات کوئی بھی ان کی آواز تک نہیں سنتا ۔شرین کہتی ہیں مجھے اپنوں کی جدائی کا غم ہے لیکن میرے ساتھ ایسی سینکڑوں خواتین ہیں جو یہاں دانے دانے کی مختاج ہیں یہاں تک کہ اُن کی آواز کوئی سننے والا نہیں،شرین کہتی ہیں مجھے ہر روز کسی نہ کسی علاقے سے ایسی بے سہارہ اور بے بس خواتین کی رودادسننی پڑتی ہے جو دونوں اطراف کی حکومتوں کی لاپرواہی کی بھینٹ چڑ ھ کر اپنے آپ کو کوس رہی ہیں۔شرین کہتی ہے کہ ہمارا کوئی بڑا مطالبہ نہیں ہے بلکہ ہم صرف یہی کہتی ہیں کہ ہمیں امن عملکے تحت آر پار آنے جانے کی اجازت دی جائے تاکہ ہم اپنے والدین سے ملاقات کر سکیں اور جو لوگ مر چکے ہیں ان کی قبروں پر جا کر فاتحہ خوانی کر سکیں ۔شرین کہتی ہیں کہ پتہ نہیں کہ انہیں کس جرم کی سزا مل رہی ہے ۔شرین کے ساتھ آنے والی دوسری خاتون نے کہا 2012میں شرین کا اور میرا کنبہ ایک ساتھ نیپال سے یہاں آیا ،اور اب پچھلے پانچ برسوں سے ہم نے کافی ظلم سہے ۔