اسد مرزا
چین کی وزارتِ تجارت نے گزشتہ پیر کے روز چینی صدر ژی جن پنگ کے حالیہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے دورے کے بعد ایک بیان میں کہاکہ:’’اطمینان امن نہیں لاتا اور سمجھوتہ عزت نہیں کماتا ہے۔ دوسروں کی قیمت پر عارضی مفاد حاصل کرنا۔ نام نہاد چھوٹ کے بدلے۔ شیر سے اس کی کھال مانگنے کے مترادف ہے۔ آخر میں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگابلکہ دوسروں اور خود دونوں کو نقصان پہنچے گااور چین اپنے مفادات کی قیمت پر کسی بھی فریق کی طرف سے معاہدے تک پہنچنے کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ اگر ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو چین اسے قبول نہیں کرے گا اور مضبوطی سے جوابی اقدامات کرے گا۔‘‘ یعنی کہ اس بیان کے ذریعے چین نے اپنے علاقائی ہمسایہ ممالک کو خبردار کیا ہے کہ امریکہ۔ چین کی محصولات جنگ میں وہ امریکہ کی حمایت کرنے کے بجائے چین کے ساتھ کھڑے ہوں۔
چینی صدر ژی جن پنگ کا ویتنام،ملیشیا اور کمبوڈیا کا حالیہ دورہ ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے کسی ٹھوس قدم کے اعلان کے بجائے صرف سفاک سفارتی اقدامات کی علامت ثابت ہوا۔ دراصل اس دورے کا مقصد یہ بھی تھا کہ امریکی تجارتی محصولات کا مقابلہ کیسے کیا جائے اور چین کی حمایت کرتے ہوئے علاقائی تجارتی تعاون کوکیسے فروغ دیا جائے۔چین کے صدر ژی جن پنگ نے 14 سے 18 اپریل کے درمیان تین جنوب مشرقی ایشیائی ممالک ویتنام،ملیشیا اور کمبوڈیا کا پانچ روزہ دورہ کیا۔ یہ چینی صدر کا اس کا سال پہلا غیر ملکی دورہ تھا، جسے بڑے پیمانے پر خطے میں بیجنگ کے تسلط کو ظاہر کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجک اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تاہم، جس چیز نے تجزیہ کاروں کو حیران کیا ہے وہ یہ ہے کہ عالمی سفارت کاری میں تبدیلی کے درمیان، خطے کے اقتصادی اینکر کے طور پر اپنے کردار کو مستحکم کرنے کی چین کی خواہش، موقع پرستی میں گہری جڑیں لیے ہوئے نظر آتی ہے۔ بیجنگ اپنے پڑوسیوں کی حمایت کرنے کے بجائے اپنی کمزوریوں کی حفاظت کرنے پر زیادہ زور دیتا نظر آیا ہے۔
چین کا ویتنامی سرزمین کا غلط استعمال: مثال کے طور پر چین اپنا سامان امریکہ تک پہنچانے کے لیے ویتنامی سرزمین استعمال کرتا ہے۔ روئٹرز نے اپنی رپورٹ میں اسے چینی سامان کی ویتنام کے راستے امریکہ کو ’’غیر قانونی ترسیل ‘‘قرار دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر ناوارو سمیت سینئر امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے، رائٹرز نے کہا کہ واشنگٹن ڈی سی نے چینی اشیا پر ‘میڈ اِن ویتنام لیبل کے ساتھ امریکہ بھیجے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان پر امریکہ آمد پر کم ڈیوٹی لگتی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چین امریکہ کو اربوں ڈالر مالیت کی اشیا سپلائی کرتا ہے جس پر ‘میڈ اِن ویتنام’کا لیبل چسپاں کردیاجاتا ہے۔ امریکی دباؤ کے تحت، ہنوئی نے کہا ہے کہ وہ چینی سامان کی اس طرح کی جعلی ترسیل کے خلاف کارروائی جلد ہی شروع کردے گا۔تاہم اس بات کی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ چینی صدر کے دورہ ویتنام کے دوران اس مسئلے پر بات ہوئی ہے یا نہیں، لیکن جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں، ژی جن پنگ کے حوالے سے چینی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ژن ہوا ‘نے کہا کہ دونوں ممالک کو ’’تزویراتی توجہ کو مضبوط کرنا چاہیے اور مشترکہ طور پر یکطرفہ غنڈہ گردی کا مقابلہ کرنا چاہیے۔‘‘ واضح رہے کہ فی الوقت امریکہ نے ویتنام سے درآمدات پر 46 فیصد ٹیرف لگا یا ہے۔اس پس منظر میں ویتنام کو لگتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ٹیرف کو کم کرانے کا فیصلہ کراسکتا ہے۔ لہٰذا اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے تحت امریکہ کو مشتعل کرنے کے خطرے کے بجائے انتظار کرنے اور فی الوقت چین کا ساتھ دینے سے گریز کرنے کو ترجیح دی ہے۔
ملیشیا کے ساتھ چین کا اسٹریٹجک رابطہ: درحقیقت، چین کے لہجے میں تبدیلی کو امریکہ کے ساتھ خاص طور پر تجارت اور محصولات کے بڑھنے کی بنا پر بڑھتی ہوئی دراڑ کے تزویراتی ردِعمل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ کوالالمپور میںژی جن پنگ نے چین کی شبیہ کو ایک خیر خواہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جوملیشیا کی ترقی کی کہانی میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ چین نے ملیشیا سے مزید اعلیٰ معیار کی مصنوعات کو چینی مارکیٹ میں داخل کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے چینی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ملیشیا میں سرمایہ کاری کریں اور کاروبار شروع کریں، ساتھ ہی انھوں نے گرین ٹیک اور مصنوعی ذہانت میں تعاون کو مزید فروغ دینے پر بھی زور دیا۔ چینی صدر کے دورے کے دوران چین اورملیشیا کے درمیان 30سے زائد معاہدوں پر دستخط کیے گئے ۔
حالیہ برسوں میں، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے دستخط کنندہ کے طور پر،ملیشیا نے بیجنگ سے بنیادی ڈھانچے سے متعلق کئی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے، بشمول $11.2 بلین ایسٹ کوسٹ ریل لنک (ECRL) پروجیکٹ۔ پچھلے سال، چینی وزیر اعظم لی کیانگ نے 10 بلین ڈالر کے ایسٹ کوسٹ ریل لنک منصوبے کے ٹرمینل کے لیے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ تاہم BRI کے دیگر منصوبوں کی طرح 665 کلومیٹر طویل ای سی آر ایل پروجیکٹ کی ترقی بہت زیادہ لاگت کے درمیان سست روی کا شکار ہے۔ ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ ملیشیا کو اس منصوبے کی تعمیر کے لیے بھاری قرضوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی اقتصادی عملداری مشکوک ہے۔
ملیشیا کو بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ کے توسیع پسندانہ رویے پر بھی تشویش ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے 18 فروری 2024 کو بیجنگ میں قائم ملیشیا کے سفارت خانے کو جاری کیے گئے ایک سفارتی نوٹ کے لیک ہونے کے بعد ملیشیا ابھی بھی چین سے ناراضہے۔ یہ سفارتی نوٹ 29 اگست 2024 کو فلپائنی نیوز ویب سائٹ، فلپائن ڈیلی انکوائرر نے شائع کیا تھا، جس سے ملیشیا کے لیے اہم تشویش پیدا ہوئی۔
امریکی محصولات پر کمبوڈیا کی الجھن:کمبوڈیا میں، جسے بیجنگ کی طرف سے ایک قریب ترین دوست کہا جاتا ہے، ژی جن پنگ نے وہی بیانیہ استعمال کیا جو انہوں نے ویتنام اورملیشیا میں استعمال کیا تھا تاکہ وہ امریکہ پر تنقید کرسکیں۔2016 کے بعد پہلی بار کمبوڈیا کا دورہ کرتے ہوئے چینی صدر نے کمبوڈیا پر زور دیا کہ وہ ’’تسلط پسندی ‘‘اور ’’تحفظ پسندی ‘‘کی مخالفت کرے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے یونیورسل 10% ٹیرف کے علاوہ، کمبوڈیا کو 90 دن کا وقفہ ختم ہونے کے بعد، کمبوڈیا کو اپنی برآمدات پر 49% ٹیکس کے خطرے کا سامنا ہے۔ جیسا کہ نوم پینہ، دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی طرح امریکہ کی زیرقیادت ٹیرف جنگ کا جواب دینے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، چین، جو کمبوڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور غیر ملکی سرمایہ کار ہے، نے خود کو ملک کے لیے استحکام اور تحفظ کا ذریعہ بنا کر پیش کیا ہے۔
مجموعی طور پر، چین نے امریکہ دشمنی کو چینی صدر کے دورے کا محور بناکر اپنے جنوب مشرقی ایشیائی پڑوسیوں کو ان کے سامان کے لیے اپنی وسیع مارکیٹ کی پیشکش کر کے اور بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کا وعدہ کر کے ان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ ژی جن پنگ کے ویتنام،ملیشیا اور کمبوڈیا کے پانچ روزہ دورے کے دوران، بیجنگ نے دوستی، خلوص، باہمی فائدے اور جامعیت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے پڑوس میں خوشحالی لانے کا عہد کیا۔ اس نے انہیں چینی جدیدکاری کے فوائد کا یقین دلایا اور مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک کمیونٹی کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرنے کا عہد کیا ہے۔تاہم، ایشیا سے افریقہ اور لاطینی امریکہ تک ۔ مختلف ممالک میں چین کی شمولیت کا ٹریک ریکارڈ اکثر خوشحالی کی بجائے اقتصادی چیلنجوں کا باعث بنا ہے۔ اس طرح، ژی جن پنگ کے حالیہ تین جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے دورے کو چین کی سفارتی مہم کے طور پر دیکھا جانا چاہئے، جس کا مقصد طویل مدتی تعاون کو فروغ دینے کی مخلصانہ کوشش کے بجائے امریکہ کی تجارتی جنگ کا مقابلہ کرنا ہےاور اس جنگ میں زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے ساتھ شامل کرنا سرِفہرست ہے تاکہ چین ان ملکوں کی قیادت کرتے ہوئے امریکہ پر دباؤ بناسکے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)