گزشتہ ماہ14تاریخ بدھ کوامریکہ ریاست فلوریڈا کے شہر پارک لینڈ میں ایک ہائی سکول میں فائرنگ کے ایک خوفناک واقعے میں کم از کم 17 ؍طلباء ہلاک ہوگئے ہیں ، پولیس نے اس قتل عام میں ملوث نوجوان کو گرفتار کیا ہے۔فائرنگ کرنے والے کی شناخت 19 سالہ نکولوس کروز کے نام سے ہوئی ہے جو اس سکول کا سابق طالب رہاہے اور اسے اس کی حرکتوں کی وجہ سے سکول سے نکالا گیا تھا۔قاتل نکولوس کروزکے حوالے سے پارک لینڈ پولیس کاکہناتھاکہ اس کاذہنی توازن درست نہیں تھا۔لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی قاتل کاذہنی توازن خراب کیوں ہوتاہے ؟سوال یہ ہے کہ نکولوس کروز اگرمسلمان ہوتاتوپھر پولیس کابیان کیاہوتا۔پولیس فوری طورپرکہہ دیتی کہ ’’واضح طورپریہ ایک ٹیرراٹیک(دہشت گردی )کاحملہ تھا اورجس شخص کوپکڑاگیاوہ مسلمان ہے۔پولیس اس شخص کاپوراشجرہ نسب بتادیتی اوراپنے ابتدائی بیان ہی میں کہہ دیتی کہ اس حملے کے تانے بانے ایک مسلمان تنظیم اورایک مسلم ملک سے ملتے ہیں۔امریکہ اندرسے کتناتاریک ترہے شمارنہیں کیاجاسکتا۔واضح رہے کہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں گذشتہ ایک دہائی میں ہونے والی ہلاکتیں2000 کی دہائی سے دگنا ہیں جبکہ 2018میں اب تک برادرکشی کے 18 حملے ہو چکے ہیں۔ بیشتر واقعات میں غیر قانونی ہتھیار استعمال ہوئے۔
دوسروں کوتحمل اوربرداشت کاسبق پڑھانے والا امریکہ ذہنی پستی اور نسلی تعصب کامارا ہواہے ۔’’خودرافصیحت، دیگران رانصیحت‘‘کی مثال سوفیصداس پرصادق آتی ہے خارجی سطح پروہ انسانیت اورعالمی امن کا کھلادشمن ہے،جبکہ درون خانہ نسلی تعصب کا شکارہے ،اس کے ماتھے پرانسانیت کے قتل عام کے دھبے ایسے واضح دکھائی دے رہے ہیں کہ اسکی اصلیت اوراسکی حقیقت کیاہے؟ صاحبان فکرونظراورفہمیدہ طبقوں کواسے پہچاننے میں کوئی دقعت محسوس نہیں ہوتی ۔اخلاقی طورپراس کااندرون کلی طورپرکھولا ،عالمی امن کوتہہ وبالاکرنے کے درپے ہے امن کا نقاب اوڑھے اس انٹرنیشنل دہشت گرد نے نہتے مسلمانوں کو خون میں نہلایا ،بارود اور آگ کے شعلوںسے مسلم ممالک کو کھنڈر بنادیا۔لیکن مسلمانوں کودہشت گردکہلوانے ،مسلمانوں کے خلاف دنیاکو اٹھ کھڑاہونے کا سبق پڑھانے والے امریکہ میں ایسے امریکی پل رہے ہیں کہ جوایک سے بڑھ کرایک حقیقی اوراصلی دہشت گردہیں ،وہ بلاوجہ اوربے مقصد بدترین دہشت گردی کے مرتکب ہورہے ہیں، وہ اپنے ہی ملک کے شہریوںکوجب چاہیں اورجس وقت چاہیں فناکے گھاٹ اتارتے ہیں۔امریکہ کا اصلی اور حقیقی چہرہ،دیکھناہوگاتو حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے اس فرمودکوحرزجان بنالیں ؎
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر
اس وقت49 ممالک میں امریکہ کے 800بیس مستقل فوجی اڈے موجود ہیں جبکہ دنیا کے 150ممالک میں امریکی فوجی کسی نہ کسی طرح موجود ہیں۔ امریکی بحری بیڑے دنیا بھر میں اس کے مفادات کے تحفظ کے ضامن ہیں جبکہ میزائل ڈیفنس سسٹم اور خلائی ٹیکنالوجی کے زریعے امریکی تسلط کے تحفظ کا کام لیا جاتا ہے۔ امریکہ کے خونین کارناموں کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ سترہ سو پجھتر سے سترہ سوتیراسی تک امریکیوں نے جنگ آزادی لڑی۔ برطانیہ سے آزاد ہونے کے بعد امریکہ نے اپنی فوجی طاقت کو مضبوط بنایا اور آس پاس موجود کئی جزیروں اور چھوٹے چھوٹے ممالک پر قبضے شروع کر دئیے۔1861 میں امریکہ کو سول وار کا سامنا کرنا پڑا جوکہ چار سال تک جاری رہی ۔ سول وار پر قابو پانے کے بعد امریکہ کے سامراجی عزائم کا آغاز ہوا۔ امریکہ نے پہلی سامراجی جنگ سپین کی کالونیاں حاصل کرنے کے لیے لڑی ۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ امریکہ نے براعظم سے باہر قدم رکھا اور فلپائن ،گوام سمیت کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انیس سو تیرہ تک فلپائن میں ہزاروںافراد کو امریکی قبضہ مضبوط کرنے کی غرض سے قتل کر دیا گیا۔۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی شہروں پر ایٹم بم گرا کر امریکہ نے نہ صرف سامراجی عزای کا اظہار کیا بلکہ ایک وحشی ریاست کے طور پر اپنی شناخت کرا لی۔چند سالوں کے بعد انیس سو پچاس میں امریکہ کورین جزیرے پر مفادات کی جنگ لڑنے کے لیے موجود تھا۔ اب کی بار کیمونسٹ شمالی کوریا کو سبق سکھانے کا اعلان کیا گیا اور اپنے ورلڈ آرڈر کی مضبوطی اور اس کے اظہار کی خاطر لاکھوں کورین باشندوں کا خون بہا دیا گیا۔
دنیا کا واحد سپر پاور ہونے کے دعویدار امریکہ کی ابتدائی تاریخ سیاہ فام افریقی باشندوں کے خون سے لکھی گئی ۔ڈیڑھ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں بہنے والے زیادہ تر خون کا ذمہ دار امریکہ ہی ہے۔نہتے افریقیوں کے خون پر بنیادپانے والے امریکہ خونین مزاج کاحامل ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو کہ جہاں امریکی خونریزی کی مثالیں موجود نہ ہوں۔ امریکہ میں یورپ کے جرائم پیشہ افراد کو بسایا گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ آنے والے دور میں زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کے باوجود امریکی مہم جووئوں کی فطرت نہ بدل سکی اور آج دنیا بھر میں اس مملکت کا تاثر محض ایک سامراجی ذہنیت کی قاتل ریاست کا ہے۔ امریکہ کی جانب سے امن، جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر دنیا بھر میں اس قدر خون بہایا گیاکہ اب ہر کوئی ان الفاظ سے ڈرتا پایا جاتا ہے۔ امریکہ کی جنگی مہموںاور قتل و غارت کے لیے بدترین طریقے استعمال کرنے کے باعث دنیا بھر میں نفرت پائی جاتی ہے اور خود امریکی ذرائع ابلاغ اپنی رپورٹوں سے اس کی تصدیق کر چکے ہیں۔امریکہ آج کے دور کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے ۔ اس کی فوج چودہ لاکھ پچاس ہزار سے زائد جوانوں پر مشتمل ہے جبکہ ریزرو فوجیوں کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب ہے۔
ہرصاحب بصیرت اس امرکودیکھ رہا ہے کہ دراصل امریکہ خارجی اورداخلی سطح پر جرائم کامرکزہے۔خارجی سطح پراسکے جرائم کی داستانیں روئے زمین پرجابجابکھری پڑی ہیںجبکہ داخلی سطح پرسیاہ فام اورسفیدفام کے درمیان خط امتیازنہ صرف صدیاں گذرجانے کے باوجودنہ صرف اپنی جگہ قائم ہے بلکہ امریکی عوام کے درمیان یہ ایسی خلیج ہے جوروزبروزگہری ہوتی چلی جارہی ہے ۔امریکہ میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے معروف ادارے سدرن پاورٹی لا کے مطابق وہ امریکہ میں ایسے امریکی شدت پسندوں پر نظر رکھے ہوئے ہے جونسل پرست ہیں اور امریکہ میں کافی متحرک ہیں اور یہ متعصب سفید فام قوم پرست ہیں۔’’دی آلٹرنٹیو رائٹ یا آلٹ رائٹ‘‘ کے نام سے مقبول اشتعال انگیزی پھیلانے والے یہ افراد ایک گروہ کی شکل میں سامنے آئے ہیں جنہیں سیاسی لحاظ سے درست زبان کے استعمال سے نفرت ہے اور صدر ٹرمپ انہیں محبوب ہیں۔ خیال رہے کہ گذشتہ برس ایک 64 سالہ سٹیفن پیڈک نے مینڈیلے بے ہوٹل اور کسینو کے باہر منعقد ہونے والی شراب وشاب کی محفل’’ والین میوزک فیسٹیول ‘‘میں شریک امریکیوں پر فائرنگ کر کے کم سے کم 58 افراد کو ہلاک جبکہ 500 سے زیادہ افراد کو زخمی کر دیا ۔لاس ویگس کنسرٹ پر فائرنگ کا واقعہ جدید امریکی تاریخ کا سب سے مہلک ترین واقعہ تھا۔لیکن امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک نوجوان کی جانب سے سکول میں فائرنگ کر کے 17 طلباء کی ہلاکت سے ثابت ہورہاہے کہ امریکہ اندرسے کھوکھلاہے ۔سکول کے قتل عام کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے صدر ٹرمپ پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔اس واقعے میں ہلاک ہونے والی ایک 14 سالہ طالبہ کی والدہ نے امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این پر آ کر روتے اور چیختے ہوئے کہا: 'یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک پاگل شخص اسلحہ لے کر سکول میں داخل ہوتا ہے، میری بیٹی کے کمرے کا دروازہ توڑتا ہے اور اسے گولی مار کر قتل کر دیتا ہے۔صدر ٹرمپ، آپ کہتے ہیں کہ میں کیا کر سکتا ہوں؟ آپ یہ کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں کے ہاتھ اسلحہ نہ لگنے دیں۔ آپ سکولوں کے باہر میٹل ڈیٹیکٹر لگا سکتے ہیں۔ آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ہم اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے سکول بھیجتے ہیں، قتل ہونے کے لیے نہیں۔
2013کے بعد سے امریکہ میں اب تک سکولوں میں فائرنگ کے 291 واقعات پیش آ چکے ہیں، جن کی شرح ایک واقعہ فی ہفتہ بنتی ہے۔لیکن ابھی تک اسلحہ پر قابو پانے کے لیے موثر قانون سازی نہیں ہو سکی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سے امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ اسلحہ رکھنا ان کا آئینی حق ہے۔اسلحے کے حق کی حامی طاقتور تنظیم نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کی لابی انگ اتنی مضبوط ہے کہ وہ اس ضمن میں ہونے والی کسی بھی قانون سازی کے آڑے آتی ہے۔ہالی وڈ کے اداکار مارک رفلو نے ٹویٹ کی کہ عمل کے بغیر الفاظ بے معنی ہیں۔2017 اکتوبر میں لاس ویگس میں فائرنگ میں 59 افراد کی ہلاکت کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ وقت اسلحے پر بات کرنے کا نہیں ہے۔لاس ویگس حملہ آور نے ہوٹل میں کیمرے لگا رکھے تھے۔فلوریڈا میں فائرنگ کے حالیہ واقعے کے بعد انھوں نے کہا کہ اس علاقے کا دورہ کریں گے۔ انھوں نے دماغ مرض کی بات بھی کی لیکن اسلحے یا اسلحے کے قانون کا ذکر نہیں کیا۔رائے عامہ کے نتائج کے مطابق اسلحہ رکھنے کے حق کے حامیوں کی بڑی تعداد نے گذشتہ انتخابات میں صدر ٹرمپ کو ووٹ دئیے تھے۔
اس گروہ کی حالیہ مقبولیت میں اضافے کی وجہ 2016 میں امریکی صدارتی انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تعصبانہ جذبات کا اظہار ہے۔آلٹ رائٹ کو میڈیا میں اس وقت مقبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے جولائی 2016 میں ریپبلکن پارٹی کے نامزد امیدوار کی حیثیت سے حریف ہلیری کلنٹن کی تصویر دادی ستارے سے مشابہ ایک چھ کونے والے ستارے کے ہمراہ ٹویٹ کی اور ساتھ یہ لکھا کہ’’اب تک کی سب سے زیادہ کرپٹ امیدوار‘‘ارچرڈ برٹرنڈ سپینسر جنہوں نے آلٹرنیٹو رائٹ اصطلاح کا استعمال شروع کیا تھا کہتے ہیں کہ اس گروہ کا مقصدسفید فام افراد کی پہچان اور روایتی مغربی معاشرے کی بقاہے۔آزادی، آزادیِ اظہار اور دوسروں کی دل آزاری کرنے کا حق حاصل ہونا ان کا نصب العین ہے۔جبکہ امریکہ میں ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ افراد نسل پرست ہیں۔یہ مومنٹ زیادہ تر تو آن لائن ہے اور اس کے ممبر باقاعدہ کسی ادارے کا حصہ نہیں اس لیے تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
اس گروہ کا مقصد ہے کہ ایسے سب لوگوں کو جن کے خلاف یہ تعصب رکھتے ہیں انہیں مساوی حقوق حاصل نہ ہوں۔ تاریخی طور پر اس گروہ کے ممبران ایسے لباس پہنا کرتے تھے جن سے اِن کے چہرے چھپ جاتے تھے اور وہ ان کپڑوں میں وہ ایسے لوگوں کی جانیں لے لیتے تھے جو جنوبی ریاستوں میں سفید فام قوم پرستی پر اعتراض کرتے تھے۔اس گروہ کے کچھ لوگ اپنے آپ کو 'سفید فام محب وطن عیسائی ادارے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ گروہ ہر امریکی ریاست میں موجود ہے اور کچھ اندازوں کے مطابق ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ایسے ہی گروہ سے وابستہ جنونیوں میں سے کوئی اٹھ کرسرعام فائرنگ کرکے لوگوں کی جانیں تلف کررہاہے ۔صرف پچھلے دوسال کاامریکی ریکارڈکھنگال لیجئے توپتہ چلتاہے کہ امریکہ میں نسل پرستی کی دھکتی آگ کی کیاصورتحال ہے ۔ سوموار 14 دسمبر 2015 کو ایک رپورٹ میں بتایاگیا کہ2015میںامریکہ میں پولیس اور سکیورٹی اداروں کی کارروائیوں کے دوران ہلاک ہونے والے امریکی شہریوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے جن میں زیادہ تر سیاہ فام شامل ہیں۔رپورٹ میں بتایاگیاکہ 2015 میں پولیس کی جانب سے 47 افراد کو کرنٹ گن ،ٹیسرسے مارا گیا اور33 کو پولیس کی گاڑی سے کچلا گیا جب کہ 36 افراد پولیس حراست میں ہلاک ہوئے اور ایک شخص کو پولیس افسر نے لڑائی میں ماردیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ صرف کیلیفورنیا میں ہی پولیس کے ہاتھوں 183 افراد کو قتل ہوئے جب کہ ان واقعات میں مارے جانے والے 22 فیصد غیرمسلح تھے، ان اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں اس طرح 2015میںروزانہ 3.1 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیاکہ مرنے والوں میں سیاہ فام افراد کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ جمعہ 8جولائی 2016کوایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایاگیاکہ امریکہ میں 123 سیاہ فام باشندے پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔یعنی یہ سال کے صرف چھ ماہ کی رپورٹ تھی اگلے باقی چھ ماہ میں کتنامذیدخون خرابہ ہواہوگااس پربھی رپورٹ آئی ہوگی۔