امریکہ اگر حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دینے کے بعد مسلٔہ کشمیر کو عالمی مسلٔہ جتلا کر ثالثی کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے،تو بھارت کیسے اسے تسلیم کرنے پر آمادہ ہو گا؟ مبصرین کی یہ آراء دلچسپ ہیں کیوں کہ کشمیر ابھی تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ایک متنازعہ عالمی مسلٔہ ہے۔ کشمیر کی جنگ بندی لکیر پر اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین سلامتی کونسل کے منڈیٹ کے تحت کام کر رہی ہے ۔پھر تازہ پیش رفت کیا ہے؟26جون عید الفطر کو جب امریکہ نیسید صلاح الدین عرف پیر صاحب کو’’ عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دیا تو شاید یہ سمجھا گیا کہ یہ صدر ٹرمپ کا ذاتی فیصلہ ہو گاجب کہ سید صلاح الدین کو ’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دلانے کے لئے بھارت برسوں سے امر یکہ میں لابنگ کر رہا تھا۔ گو کہ جب امریکہ کا اس بارے میں بیان جاری ہوا تو اس میں ’’بھارت کے زیر انتظام کشمیر‘‘ کا فقرہ استعمال کیا گیا جس پر آزادی پسندوں نے خوشی کا اظہار بھی کیا کہ امر یکہ نے ایک ڈپلومیٹک زبان سے دلی کو باور کرایا کہ اس کے زیر انتظام حصہ اس کی قومی ملکیت نہیں بلکہ ایک حل طلب متنازعہ خطہ ہے ۔ امریکہ کے اس ذو معنی پالیسی بیان کو سب نے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔اگر چہ امریکہ نے تاثر دیا کہ سید صلاح الدین کو ’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دینے کا اعلان صرف پیر صاحب کی ذات تک موثر ہے، اس میں حزب المجاہدین کا کوئی ذکر نہیں۔ امریکہ نے حزب المجاہدین کو’’ دہشت گرد‘‘ قرار نہیں دیا ہے۔ امریکی وضاحتیں اور مبہم پالیسی کا اعادہ بھی کیا جا رہا ہے کہ وائٹ ہائوس کی پالیسی میں بدلائو نہیں آیا۔ جہاں سید صلاح الدین کو’’ عالمی دہشت گرد ‘‘قرار دینے کے امریکی اعلان کی مذمت کی گئی۔ اس کے خلاف مظاہرے ہوئے، ریلیاں نکالی گئیں۔’’ آزاد کشمیر ‘‘کے دارلحکومت مظفر آباد میں سید صلاح الدین پر مہاجرین اور انصار نے بڑے تپاک سے ایک جلوس میں پھول نچھاور کئے۔ ’’آزاد کشمیر‘‘ کے وزیراعظم نے انہیں خصوصی ضیافت دی۔اسی کے ساتھ ہی کشمیر کو بھارت کا زیر انتظام خطہ قرار دینے کے امریکی بیان کا خیر مقدم کیا گیا۔ پاکستان نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا۔ وزیراعظم پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایک ملاقات میں کہا کہ’’ عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دینے کا زیر بحث اعلان امریکہ کا ہے ،اقوام متحدہ کا نہیں کہ کوئی مسلٔہ ہو۔ بھارت نے بھی امریکہ سے احتجاج کیا کہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم کیا جائے، اسے بھارت کے زیر انتظام علاقہ قرار نہ دیا جائے۔ اس کے تقریباً ایک ماہ بعد 19؍جولائی کو بھارتی وزیر مملکت خارجہ امور وی کے سنگھ نے لوک سبھا کو بتایا کہ امریکہ نے بھارت کا موقف تسلیم کرلیا ہے اور امریکی میڈیا نوٹ میں ترمیم کرتے ہوئے’’بھارت کے زیر انتظام ‘‘ فقرہ کو ’’جموں و کشمیر‘‘ سے بدل دیا ہے۔ پاکستان میں پاناما لیکس پر شریف خاندان کو زیر عتاب لانے کی کوشش اور سیاسی خلفشار میں یہ اہم معاملہ دب کر رہ گیا ہے۔ملک کی خارجہ اور کشمیر پالیسی کے خد و خال کیا ہیں؟ واقفان ِحال تذبذب کا شکار ہیں۔ ’’حالات کی دُرست عکاسی نہ ہو اور سب اچھا ہے‘‘ کی گردان کی جائے تو وقتی طور پر یہ بعضوں کے لئے یہ مدھر موسیقی ثابت ہو گی لیکن یہ ملک و قوم کی خدمت نہیں بلکہ چاپلوسی اور منافقت ہو گی۔ اس لئے اس خطے کے تناظر میں تیزی سے بدلتے عالمی حالات کا تجزیہ کیا جا نا انتہائی ضروری ہے۔ زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونا خطرے کاسامنا کرنے کے بجائے شتر مرغ کی طر ح خطرہ دیکھ کر آنکھیں موند لینے کے مترادف ہو گا۔
گو کہ پیر صاحب کوبھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی وائٹ ہائوس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات اور ضیافت سے چند گھنٹے پہلے ہی یہ انوکھا اعلان کیا گیا۔ ضیافت میں امریکی خاتون اول کی شرکت اور دیگرتاثرات سمیت سب کہتے ہیں ،اس کا مقصد مودی کی خوشنودی تھا جو بھارت کو امریکی منڈی بنانے، امریکی کی اسلحہ ساز کو روزگار دینے، سرمایہ کاری، اسلحہ کی خریداری اور فوجی اڈے فراہم کرنے پر آمادہ ہو رہے ہیں۔ سید صلاح الدین کو’’ عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دینے کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی بیان کی گئی کہ انہوں نے مسلٔہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے میں رکاوٹ ڈالنے،مزید کشمیری خود کش بمباروں کی ٹریننگ اورکشمیر کو بھارتی فورسز کا قبرستان بنانے کا اعلان کیا۔پیر صاحب نے کشمیر کے باہر کبھی حملے نہیں کئے، ان کے داعش ، القاعدہ ، طالبان سے کوئی رابطہ ہے نہ کوئی لینا دینابلکہ وہ ان کے ساتھ اعلانیہ لاتعلقی ظاہر کر چکے ہیں۔ سید صلاح الدین کا کوئی عالمی ایجنڈانہیں بلکہ ان کی تمام تر توجہ مسئلہ کشمیر کے حل پر مر کوز ہے ا ور بس ۔پھر بھی انہیں’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ وہ وردی پوش جو افسپا سے طاقت اور حوصلہ پاکر کشمیر میں بشری حقو ق کی پامالیاں کر نے میں مصروف ہیں ، جو نہتے عوام کا قتل عام کر نا اپنا کر تویہ سمجھ رہے ہیں،جنہوںنے سینکڑوں نہتے بچوں اور خواتین تک کی پیلٹ اور زہریلی گیسوں سے بینائی چھین لی ہے، جو ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو ٹارچر سیلوں اور جیلوں میں ذہنی اور جسمانی طور پر معذور بناتے جا ر ہے ہیں، جنہیں چادر اور چاردیواری کا پاس ولحاظ نہیں ،جنہیں عوام کا قتل عام کر نے شاباشیاں مل رہی ہیں اور جو انسانی ڈھال بناکر نہتوں کے خلاف سنگین جنگی جرائم جاری رکھے ہوئے ہیں اور جو بندوق کی نوک پر عوام کی تمام آزادیاں اور حقوق سلب اور پامال کر ر ہے ہیں، ان کے خلاف اگر قفس کے قیدیوں کی جدوجہد اگر’’ دہشت گردی‘‘ قرارپائے تو یہ کتنا صریحی ظلم اور آمریت پسندانہ سوچ ہے ؟ امر یکہ کی ٹرمپ حکومت ظلم اور ناانصافی کی اس طویل داستانمیں شریک ِجرم بن رہی ہے۔ مبصرین وائٹ ہائوس میں مودی کے ٹرمپ کے ساتھ معانقے اور ’’ریڈیکل اسلامک ٹرئرازم‘‘کے خلاف دونوں کے مشتر کہ عزم کاا ظہار براہ راست اسلام کودہشت گردی سے جوڑنے کی بھونڈی کوشش سمجھی ہے۔ اس میں ہندو دہشت گردی کی اس تلخ حقیقت کوکیوں نظر انداز کیا گیا جوآج کل پورے بھارت میں گئو رکشا کے نام پر ترشولیوں کی پیاس خون ِ مسلم سے بجھارہی ہے ؟ کیا امریکہ نے مودی کو بطور وزیراعلیٰ ریاست گجرات میں بدترین مسلم کش فسادات کر وانے کے الزام میںامر یکہ کا ویزا دینے سے انکار نہیں کر دیا۔؟ تاریخ کا وہ کھلا سچ کس عنوان سے امر یکی تاریخ میں لکھا گیاہے ؟ کسی نہتے کو دہشت گرد ہونے کی گالی دینا اور کسی آمر کے پاؤں تلے استقبال میں سرخ قالین بچھانے سے تاریخ کے حقائق نہیں بدلتے ۔ اس طرز سیاست سے جارج واشنگٹن اور ابراہیم لنکن کی تحریک کی نفی ہوتی ہے۔ امریکہ مطالبہ کرتاہے کہ پاکستان کی سرزمین بھارت کے خلاف استعمال نہ ہو، بالکل ٹھیک لیکن وہ بھارت پر کوئی دبائو کیوںنہیں ڈال رہا کہ وہ کشمیر میں سرکاری ریاستی دہشت گردی بند ہو؟ حق بات یہ ہے کہ امریکہ اپنا مزید زنگ آلودہ اسلحہ بھارت کو فروخت کرے گا جو صرف نہتے شہریوںکے خلاف استعمال ہو ناہے۔اسی اسلحہ گولہ بارود، ڈرون، جنگی ساز و سامان کی فروخت کے لئے کشمیر کی مقامی مزاحمتی تحریک اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ کو عالمی دہشت گرد ی کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ سیدصلاح ا لدین نے نہ کبھی امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا، نہ وہ کہتے ہیں کہ کشمیر حل کے لئے پُرامن مذاکرات کے بغیر کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے ۔ حزب نے بارہا واضح کیا کہ بندوق ان کے ہاتھ میں کشمیر حل تک ہے، اس ہاتھ کشمیر کا منصفانہ، قابل قبول ، دیرپا مذاکراتی حل دیجئے،اس ہاتھ بندوق حزب رضاکاروں سے خود بخود ناسیاً منسیا ہوگا کیونکہ بندوق اٹھانا ہماری کوئی ہابی نہیں بلکہ امر مجبوری ہے ۔ انہوں نے کئی بار دنیا میں ہونے والی دہشت گردانہ واقعات کی بھر پور مذمت کی۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ بھارت کو کشمیریوں کے قتل عام سے روکے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرنے میں مزید تاخیری حربے استعمال نہ کرنے پر دباؤ ڈالے۔ امریکہ اگر کشمیر میںریاستی دہشت گردی کو کشمیری مسلمانوں کو دبانے کے لئے درست سمجھتا ہے تو وہ دنیا میں انسانی حقوق کی پاسداری کا منافقانہ موقف کیسے اپنا سکتا ہے؟ امریکی ایگزیکٹو آرڈر کی رُو سے سید صلاح الدین ’’عالمی دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں الل ٹپ شامل کئے جا چکے ہیں اور ان پر جو پابندیاں عائد کردی گئی ہیں وہ انتہائی بے مطلب اور مضحکہ خیز ہیں ۔ صلاح الدین نے کبھی امریکا کا سفر نہیں کرنا اور نہ ہی امریکہ میں جائیداد یا اثاثے جمع کرنے ہیں۔ ان کے بنک اکائونٹ بھی امریکہ یا اس کے اتحادی ممالک میں نہیں ہیں۔ اس لئے امریکی اعلان سے صلاح الدین صاحب کو بجز اس کے کہ ایک اخباری سرخی بن گئی،ا نہیں کوئی نقصان کیا پہنچے گا؟اگر سید صلاح الدین اس لئے’’ عالمی دہشت گرد‘‘ قرارپائے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور آزادی پسند بھی ہیںتو یہ امریکی جمہوریت پر نمایاں طور دھبہ ہو گا۔امریکہ جانتا ہے، ان کا اصل نام محمد یوسف شاہ ہے، وہ کشمیر ستے تعلق رکھتے ہیں ، جمہوریت پر یقین رکھتے ہوئے انتخابی میدان میں کود گئے تھے۔انہوں نے 1987ء میں کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن بھارت نے روایتی طور پر انتخابی دھاندلی کی جس سے مایوس ہو کر دیگر کشمیری نوجوانوں کی طرح وہ بندوق اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ سید صلاح الدین سمیت کسی بھی کشمیری سرفروشوں نے آج تک امریکہ یا کشمیر سے باہر حملہ کرنے کی کبھی بات نہیں کی کیوں کہ ان کا ٹارگٹ افسپا کا وہ ٹڈی دل ہے جو کشمیریوں کی نسل کشی کر رہاہے ۔ کشمیری عسکریت پسندوں نے کبھی بھارتی شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ کئی بار نہتے بھارتی سیاحوں اور یاتریوں کی کھلے دل سے مدد کی۔ کشمیر میں عسکری جھڑپوں کے باوجود بھارتی ہندئوں کی امرناتھ یاترا جاری رہنا ہی اس امر کا بلیغ اشارہ ہے کہ بلکہ کشمیری آزادی پسند عوام ہیں متعصب یا تنگ نظر نہیں ۔ یہ کشمیری عوام ہی تھے جنھوں نے 2014ء کے سیلاب میں پھنسے بھارتی فوجیوں کو رضاکارانہ طور پر ڈوبنے سے بچالیا۔ انہیں شیلٹر اور خوراک فراہم کی اور مصیبت کے وقت ان کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کی کہ اس کااعتراف کشمیری نوجوانوںکا شکریہ ادا کرتے ہوئے سری نگر میں مقیم فوجی کمانڈروں نے کھل کر کیا۔ اس طرح کی کوئی اور مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔
وزیراعظم ہندنریندر مودی کی صدر ٹرمپ سے ملاقات سے پہلے امریکی وزیر دفاع جیمز مٹس اور وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بھارتی وزیراعظم سے کئی ملاقاتیں کیں۔ جب ٹیلر سن کی مودی سے ملاقات جاری تھی، اسی وقت وزارت خارجہ کا نوٹیفکیشن آگیا جس میں سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیا گیا۔ تا ہم مبصرین سمجھتے ہیں کہ اس سے سید صلاح الدین کو نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہو گا۔ مسلٔہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہو گا۔ کشمیر کی آواز دنیا میںسنی جائے گی۔ یہ بھی درست ہے کہامر یکہ کی اس حرکت سے مسلمانانِ عالم میں ایک بار پھر یہ پیغام گیا کہ امر یکہ کلمہ گوؤں کے تئیں سوتیلی ماں کا سلوک کر نے پر برابر گامزن ہے، یہ اسرائیل اور بھارت کو اپنے اصل سیاسی مسائل حل کر نے کی بجائے انہیں الجھائے جارہاہے اور یہ طرز عمل طویل المدت امر یکی مفادات کے منافی ہے۔ بھارت نے جنوبی ایشیا اسلحہ کی دوڑ شروع کی ہوئی ہے۔ امریکی جنگی اسلحہ کی فروخت سے اس خطے میں اسلحہ کی دوڑ تیز ہو سکتی ہے اور یہ بات علاقائی اور عالمی امن کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ امریکہ نے پروفیسر حافط سعید، مولانا مسعود اظہر، ذکی الرحمان لکھوی، داوود ابراہیم، عبد اللہ منتظر سمیت لا تعداد پاکستانیوں کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ ان کا تعلق القاعدہ، طالبان، داعش سے جوڑا جا رہا ہے جب کہ سابق امریکی وزیر خارجہ اور خاتون اول ہیلری کلنٹن خود اعتراف کر چکی ہیں کہ داعش قائم کرنے میں امریکہ کا کردار دخیل رہاہے۔ اگر چہ ایک بڑی منڈی ہونے کے پیش نظر امریکہ نے بھارت کو اچھے موڑ میں رکھا ہو اہے مگر سید صلاح الدین کو’’ گلوبل دہشت گرد‘‘قرار دینے سے کشمیر کاز گلوبلائز ہونے کے امکانات روشن ہو رہے ہیں۔ بایں ہمہ حزب المجاہدین سمیت دیگرکشمیری تنظیموں کا کو ئی عالمی ایجنڈا نہیں ہے۔جب کشمیر میں داعش کے پرچم لہرائے جانے لگے تو سید صلاح الدین اور جہاد کونسل نے داعش یا القاعدہ اور طالبان سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کشمیریوں سے بھی خبردار رہنے کی اپیل کی کیوں کہ کشمیر ی بھارت سے کشمیر حل کے سوا کچھ اور نہیں چاہتے ہیں۔ بھارتی فوج کا انخلاء اور اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق رائے شماری ان کا مقصد ِوحید ہے۔ اگر امریکہ کی طرف سے سید صلاح الدین کو’’ گلوبل دہشت گرد‘‘ قرار دینے کے بعد اگر کشمیریوں کی نسل کشی میں اضافہ ہو تا رہے اور امن پسند دنیا اس کا سختی سے نوٹس نہ لے تو کشمیریوں کے Genocideمیں اضافہ ہو نے سے برصغیر میں مزید غیر یقینیت بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔ بہرصورت امریکی وزارت خارجہ کے بیان میں مبینہ طورترمیم اور پاکستان کے احتجاج کو نظر انداز کرنا باعث تشویش ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر کے بڑی قیمت چکائی اور سب سے زیادہ جانی اور مالی قربانی پاکستان نے ہی دی ہے جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ اسٹیبلشمنٹ کو اگر پانامہ لیکس سے فرصت ملے تو اس اہم مسئلے پر بھی ذرا سی توجہ دینی چاہیے۔کشمیر ایک متنازعہ خطہ اور عالمی مسلٔہ ہے۔ اقوام متحدہ کا اس کے حتمی حل میں ایک مسلمہ کردار ہے۔ سلامتی کونسل کے منڈیٹ سے ہی اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کشمیر میں موجود ہیں۔ پاکستان ان مبصرین کے فوجی کردار کے ساتھ سیاسی کردار کے لئے لابنگ کرے تو زیادہ مناسب ہو گا۔