امریکہ میں مقامی دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی وارداتیں آئے دن پیش آتی ہیں لیکن امریکی حکام اپنی سرزمین پہ پیش آنے والی کارروائیوں میں اگر سفید فام ملوث ہوں تو اس واقعہ کو ’’ نفرت کے جرم‘‘ یا ’’بدی کے مظاہرے‘‘ کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ 1990کی دہائی میں امریکہ میں سالانہ انتہا پسند حملوں کی اوسط 70تھی جب کہ 2000ء سے2011ء تک کے عرصے میں 307حملے ہوئے گویا کہ اس میں 400فیصد اضافہ ہوا۔ ایک سروے کے مطابق اس وقت امریکہ میں 900سے زائد انتہاء پسند گروہ ہیںجن کا ایجنڈا صرف نفرت پھیلانا ہے۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ امریکی صدر یا نائب صدر نفرت سے بھرے ان واقعات پہ کس قسم کے ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ حال ہی میں لاس ویگاس میں دہشت گرد حملے کو بھی صدر ٹرمپ نے، نفرت کے جرم کا لیبل چسپاں کر کے داخل دفتر کر دیا کیو نکہ اس میں سفید فام باشندہ ملوث تھا۔ اس کے برعکس اگر کوئی مسلمان پر ایسے حملے میں ملوث ہونے کا الزام لگے تو مسلمان من حیث القوم دہشت گرد اور انتہا پسندقرار پاتے ہیں۔ امریکی میڈیا ہفتوں ان حملوں کے ملزموں کی بال کی کھال اتارتا رہتا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 2015میںسان برنانڈینو کے حملے میںپاکستانی نژاد جوڑے کو حملے کا مرتکب قرا ر دیا گیا تھا۔ ٹی وی چینلوں نے ان کے گھر میںداخل ہو کر ان کے کلام پاک کے نسخے، جائے نماز اور تسبیح کی تصویریں اتار کر ان کی انتہا پسندی کے ثبوت کے طور پر پیش کیں حالانکہ یہ چیزیں صوم و صلواۃ کے پابندہر مسلمان گھرانے کی زینت ہوتی ہیں۔اوکلا ہوما شہر میں سفید فام ٹموتھی میکوے اور ٹیری نکولس نے 19اپریل 1995کو 168لوگوں کو ٹرک میں نصب بم کے ذریعے ہلاک کیا لیکن اس سنگین واقعے کو بھی ’’نفرت کا جرم‘‘ قرار دیا گیا۔ 5اگست 2012کو سفید فام ویڈ مائکل پیج نے اوک کریک و سکونسن میں واقع سکھ گوردوارے میں چھ سکھوں کو عبادت کے دوران ہلاک کر دیا اور چار کو زخمی لیکن یہ واردات بھی دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں کی گئی۔ 15اپریل 2013کو بوسٹن میں میراتھون ریس کے دوران دو مسلمان چیچن نڑاد بھائیوں نے دو بم نصب کئے جن کے نتیجے میں 3افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ دونوں بھائی امریکی شہری تھے اور بظاہر ان کا تعلق کسی جہادی تنظیم سے نہیں تھا لیکن اس واقعے کو دہشت گردی کی واردات میں شمارکیا گیا۔اس کے برعکس 17جون 2015کو سفید فام امریکی ڈئلان روف نے چارلس ٹائون کے گرجے میں نو افراد کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ ہلاک شدگان سیا ہ فام تھے اور مجرم نے گرفتاری کے بعد بیان دیا کہ اسے کالوں سے نفرت ہے اور وہ چاہتا تھا کہ ان کی ہلاکت سے نسلی فسادات شروع ہو جائیں اس کے باوجود اسے نفرت کے جرم میں ملوث ہونے کی پاداش میں سز اہوئی۔ سان برنانڈینو کا تذکرہ اوپر آ چکا۔ اس میں پاکستانی نڑاد امریکی شہری سید رضوان فاروق اور اس کی اہلیہ تاشفین ملک ملوث قرار پائے دونوں کو دہشت گرد قرار دے کر پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔12جون 2011کو اورلینڈ و میں عمر متین نامی مسلمان امریکی نے ایک نائٹ کلب میں حملہ کرکے 49افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جب کہ اکتوبر 2017کو لاس ویگاس کے ایک نائٹ کلب میںایک سفید فام امریکی اسٹیفن پیڈوک نے 50افراد کو ہلاک کر ڈالا اور 546کو زخمی۔ عمر متین دہشت گرد قرار دیا گیا جب کہ اسٹیفن پیڈوک کو قاتل۔ امریکہ ہی میں پادری ٹیری جونز نامی جیسے فتنے بستے ہیں جو اسلام کو سرعام بدنام کرتے ہیں، کلام پاک کے سینکڑوں نسخے سرِ عام نذرِ آتش کرتے ہیں لیکن بجائے سزا کے مرتکب ہونے کے انہیںمحض 271 ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑتاہے کہ کلام پاک کو نذر آتش کرتے وقت انہوں نے اس تماشے کو دیکھنے والے سامعین کی حفاظت کا خاطرخواہ بندوبست نہ کیا تھا۔ بہرحال جہاں امریکہ کوبعض مسلم ملکوں لاکھ خرابیاں نظر آتی ہیں، وہاں ان ملکوں پہ تنقید کرنے سے قبل امریکہ کو اور خصوصاً صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے۔