یو این آئی
نیویارک //امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تصدیق کی ہے کہ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے غزہ میں قید یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حال ہی میں حماس کے ساتھ براہ راست بات چیت کی ہے۔خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق اوول آفس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس کوشش کا مقصد اسرائیل کی مدد کرنا ہے، امریکا قیدیوں کی رہائی کے لیے رقم ادا نہیں کرے گا۔دریں اثنا، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں کے ساتھ امریکا کی بات چیت حالیہ تھی اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ کو پیغام یہ ہے کہ امریکا یرغمالیوں کو گھر واپس لانا چاہتا ہے۔اسٹیو وٹکوف نے اس موقف کا بھی اعادہ کیا ہے کہ حماس کو غزہ میں مستقبل کی حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ ٹرمپ، مشرق وسطیٰ کے دیگر لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ وہ اس حوالے سے فعال تجاویز پیش کریں جن پر ہم غور کر سکتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ کچھ کارروائی ہونے جا رہی ہے، یہ اسرائیلیوں کے ساتھ مشترکہ طور پر ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’فی الحال یہ واضح نہیں ہے، لیکن میرے خیال میں حماس کے پاس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے، صحیح کام کرنے اور پھر واک آؤٹ کرنے کا موقع ہے، وہ وہاں کی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔‘دریں اثنا، امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ غزہ کے لیے مصر کی سربراہی میں تجویز کردہ منصوبہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی توقعات پر پورا نہیں اترا، جنہوں نے جنگ زدہ علاقے سے فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر بے دخل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے صحافیوں کو بتایا کہ مجوزہ معاہدہ صدر ٹرمپ کے مطالبے کے تقاضوں اور نوعیت پر پورا نہیں اترتا۔ترجمان محکمہ خارجہ کی بریفنگ سے کچھ دیر قبل وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسٹیو وٹکوف نے کہا تھا ہمیں اس بارے میں مزید بات چیت کی ضرورت ہے لیکن یہ مصریوں کی جانب سے نیک نیتی کا پہلا قدم ہے۔فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی حمایت کرنے والے طلباء کو امریکی ویزا ملنے میں اب مشکلات کا سامنا ہو گا۔غیر ملکی میڈیا نے امریکی محکمۂ خارجہ کے سینئر حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ اب مصنوعی ذہانت کو استعمال میں لا کر ایسے غیر ملکی طلباء کے ویزے منسوخ کرے گی جو فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے حامی ہیں۔حکام نے بتایا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے ، جس کے مطابق ایسے طلباء اور دیگر لوگوں کو ملک بدر کیا جائے گا جنہوں نے فلسطین کی حمایت میں ہونے والے ان مظاہروں میں حصہ لیا جو غزہ پر ہونے والے اسرائیلی فوجی حملے کے دوران جاری رہے ۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ہزاروں ایسے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے جائزے بھی شامل ہوں گے جو مبینہ طور پر غزہ کے حق میں اسرائیل کے خلاف ملوث ہوئے .
اسرائیل کی پناہ گزین کیمپ مسمار کرنے کی مہم
یو این آئی
یروشلم//اسرائیل نے 1967 کے بعد سے مغربی کنارے میں پناہ گزینوں کے کیمپ کو مسمار کرنے کی ‘سب سے تباہ کن’ مہم شروع کی ہے ۔ یہ اطلاع جمعہ کے روز فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے ) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے دی۔جنرل فلپ نے کہا ‘‘آج اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے شمالی مغربی کنارے میں تلکرم میں نور شمس کیمپ میں 16 سے زائد عمارتوں کو مسمار کرنا شروع کر دیا ہے ۔ دوسری انتفاضہ (فلسطینی انقلاب) کے بعد یہ مہم سب سے طویل اور تباہ کن ہے ، جس کے نتیجے میں 1967 کی جنگ کے بعد مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی سب سے بڑی بے گھری ہوئی، جس میں تقریباً 40,000 لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی منظم اور بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا خطے میں فلسطینی پناہ گزینوں پر وسیع پیمانے پر اثر پڑا ہے ۔ اب ان کے پاس واپس جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور انہیں بہت زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔اسرائیل نے غزہ پٹی میں جنگ بندی کے نفاذ کے چند دن بعد 21 جنوری کو مغربی کنارے کے شہر جنین میں فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے کہا کہ اس آپریشن کو‘آئرن وال’ کا نام دیا گیا ہے اور اس آپریشن کا مقصد مغربی کنارے میں سیکیورٹی کو مضبوط بنانا ہے ۔