جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی صدارت سنبھالی ہے تب سے ہی پاک امریکہ تعلقات کی قلعی کھل کر سامنے آ چکی ہے ، امریکہ کا وہ غصّہ جو اوبامہ انتظامیہ کے آتے ہی شروع ہو چکا تھا، اب ٹرمپ دور میں کھل کر میڈیا کی زینت بننے لگا ہے ۔ شنید ہے کہ اس کی وجہ امریکہ کی 16 سال بعد بھی افغانستان میں اپنی من منشاء حکومت حاصل نہ کرنا اور افغان طالبان کا اب بھی اکثریتی حلقوں میں مقبول ہونا ہے ۔
الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ، کچھ حلقے اکثر افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کو لے کر واویلا کرتے رہتے ہیں کہ جی چونکہ پاکستان نے امریکہ کو اپنی سرحد افغانستان کی سرزمین کے خلاف استعمال کرنے دی تھی اس لئے افغان حکومت یا عوام کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ یہ تجزیہ کاری سراسر لغو اور بے بنیاد مذعومہ ہے ۔سب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر پاکستان امریکہ کو اپنی سرحد نہیں دیتا تو وہ سیدھا اس جنگ سے باہر ہوجاتا جو اس کی طویل ترین سرحدی پٹی پر لڑی جانی تھی ۔ دنیا کے درجنوں ممالک بشمول بھارت جب پاکستان کی مغربی سرحد پر آ بیٹھتے تو ماسوائے اس کے پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہ ہوتا کہ وہ اپنی ساری طاقت مغربی سرحد پر لا کھڑی کرے اور وہاں سے ہونے والے ممکنہ حملے یا جارحیت کے لئے خود کو تیار رکھے ۔ ایک دو سال تک تو شاید پاکستان ایسا کر بھی لیتا مگراس کےبعد فوجی تنصیبات اور اسلحہ کے پرزے نہ ملنے اور اقتصادی پابندیوں کے ہوتے ہوئے ریاست پاکستان مغربی تو دور اپنی مرکزی مشرقی سرحد کی حفاظت کرنے کے قابل بھی نہ رہتی ،جب کہ اسی سال دسمبر میں بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے کے بعد بھارت اپنی فوجیں اور بھاری اسلحہ مشرقی سرحد پر منتقل کر چکا تھا اور کشیدگی اتنی بڑھ چکی تھی کہ کسی بھی وقت محدود پیمانے پر جنگ شروع ہوسکتی تھی ، تیسری جانب پاکستان کے کٹر مخالف شمالی اتحاد والے بھی باقاعدہ امریکی دستے کا حصہ بن چکے تھے ۔وہ دوست جو پہلے امریکہ کو اپنی زمین دینے کے سراسر مخالف رہے ہیں، آج 17 ؍سال بعد اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرزمین دینا درست فیصلہ تھا پر پاکستان کو پہلے اچھی بارگیننگ کرنا چاہئے تھی ۔ویسے کیا یہ دوست اس بات کا جواب دینا پسند کریں گے کہ 17 ؍سال تک معصوم اور کچے ذہنوں کو جو اپنی ہی سپاہ اور ریاست کے خلاف بھڑکاتے رہے ہیں ،اس کا مداوہ وہ اب کیسے کریں گے ؟ تحریک طالبان پاکستان میں اس پروپیگنڈا کو لے کر جن ماؤں کے بچوں نے شمولیت اختیار کی اور تاریک راہوں میں مارے گئے، اس کا گناہ کس کے سر ہوگا ؟ انہی " دوستوں " نے پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان آرمی نے امریکہ کی مدد کی اس لئے وہ افغان مسلمانوں کے قتل میں برابر کی شریک ہے یا پھر " اسلام دشمن" ہے اور اب یہی لوگ کہتے ہیں کہ زمین دینا درست فیصلہ تھا بس " بارگیننگ " ٹھیک سے کرنا چاہئے تھی ۔ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکہ نے پاکستان سے’’اجازت‘‘ نہیں مانگی تھی کہ ہم یہاں آجائیں پلیز ، بلکہ امریکہ نے یہ بتایا تھا کہ ہم آرہے ہیں اور ہمارے ساتھ 43 دیگر ممالک بھی ہیں، ہمیں بھارت کی بھرپور مدد کی یقین دہانی مل چکی ہے ،تُرک افواج ہمارے ساتھ ہیں، چین اور سعودیہ بھی ہماری حمایت میں ہے جب کہ 1996 سے افغانستان میں بیٹھا تمہارا دشمن ’’شمالی اتحاد‘‘ (ایران کا مکمل حمایت یافتہ ) جسے افغان طالبان نے قابو کر رکھا تھا ،وہ بھی ہمارے فوجی دستوں میں شامل ہے اب بتاؤ تم کہاں کھڑے ہو ؟ کیا ایسے میں پاکستان ان سب کے خلاف کھڑا ہوتا ؟ یا ان کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کا پاکستان میں بھی تحفظ کرتا اور افغانستان میں بھی ؟ جنگی ڈکٹرائنز پڑھنے اور سمجھنے والے ہر شخص کی ترجیح دوسرا آپشن ہوتا مگر ہاں تھڑے پر بیٹھ کر لمبی ہانکنے والے عقل سے کوسوں دور بسیرا کئے لوگ یقیناً پہلے آپشن پر ہی کلک کرتے !!یہاں دوست اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نے جو 80 ہزار جانیں گنوائیں اس کا حساب کون دے گا ؟ جناب مکمل احتیاط برتتے ہوئے بھی جب 80ہزار جانیں گئیں تو سوچیں اگر احتیاط نہ برتتے تو یہ تعداد شاید 80 لاکھ سے بھی زائد ہوتی اور شاید میں اور آپ اس جنگ پر تبصرہ کرنے کے لئے اپنی قبروں کے اندر موجود ہوتے ،جنگیں جوش سے نہیں حکمت سے لڑی جاتی ہیں ، بقول ایک مشہور مسلمان سپہ سالار ’’ وہ بہادری جس میں عقل کا عنصر شامل نہ ہو سراسر گھاٹے کا سودا ہے ‘‘ یہاں حضرت علی کرم الله وجہہ سے بہادر کوئی نہیں ہے مگر یاد رہے صلح حدیبیہ انہی سے لکھوایا گیا تھا ، شہادت کی تمنا ہمارے صحابہ کرام ؓ سے زیادہ کسی کو نہیں ہوسکتی ۔تاہم یاد رہے غزوہ خندق میں جب قریش ، نجد کے مشرک قبائل اور بنو نضیر کے یہودی ’’ گریٹ الائنس ‘‘ بنا کر مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے نکلے تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہؓ نے جنگ کے بجائے اپنے دفاع کو ترجیح دی ۔ اگر صلح حدیبیہ میں الله کے نبیؐ نے حکمت سے کام نہ لیا ہوتا تو اس کے بعد کا منظر کیسا ہوتا ؟ غزوہ خندق میں اگر مسلمان دفاع نہ کرتے تو بھی الله کی مدد سے 3000 مسلمان اپنے مدمقابل 10000 سے زائد لشکر کو بے شک شکست دے سکتے تھے مگر حکمت اور عقل کا استعمال میرے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ترجیح تھی ۔ ان درخشندہ مثالوں کی روشنی میں جب ہم اپنے گردونواح پر غور کر تے ہیں تو دیکھتے کہ آج 16 سال بعد امریکہ اور اس کے اتحادی اس بات کو کوس رہے ہیں کہ پاکستان ہمارے اتحاد میں شامل ہی کیوں ہوا ۔آج اس جنگ کے 16 سال بعد بھی افغانستان میں انہی کا ڈنکا بجتا ہے جن کا 16 سال قبل بج رہا تھا ، ہاں فرق یہ ہے کہ امریکہ اپنا اربوں ڈالراس جنگ میں پھونک کر اپنانقصان کروا بیٹھا ہے ، پاکستان کا مفاد چاہے وہ شخصی شکل میں ہو یا معاشی شکل ،میں کل بھی محفوظ تھا آج بھی محفوظ ہے ۔امریکہ نے اگر اپنے علاقائی حلیفوں سے مل کر دہشت گرد تنظیم ’’تحریک طالبان پاکستان‘‘ کو بنا ئی، افغانستان میں انہیںمحفوظ پناہیں دیں تو ہمارا افغان طالبان کی پوری شوریٰ کو پاکستان میں پناہ دینے کا فیصلہ بھی درست ثابت ہوا ۔امریکہ نے اوائل میں پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیز پر افغان طالبان کی مدد کرنے کا الزام لگایا تو مشرف کے حکم پر ملٹری انٹیلی جنس کو سی آئی اے کے ساتھ مل کر پاکستان میں موجود امریکہ مخالف گروہوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں جب کہ ساتھ ہی آئی ایس آئی کو ٹاسک دیا گیا کہ القاعدہ اور افغان طالبان کو پاکستان میں الگ کریں ( القاعدہ پر پاکستان کو کبھی بھروسہ نہیں رہا کہ یہ ہمیشہ مسلم ریاستوں میں فساد وتباہی کا باعث بنتی رہی) لہٰذا جہاں ایک طرف ایم آئی والے سی آئی اے کے ساتھ مل کر القاعدہ کے خلاف آپریشن کرتے رہے، وہیں دوسری جانب آئی ایس آئی نے افغان طالبان کی پوری قیادت کو دنیا کی سب سے زائد وسائل رکھنے والی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے جال سے محفوظ رکھا ۔ اس سب کا ہی نتیجہ ہے کہ آج 16 سال بعد ایک سپر پاور کا جھگڑالو صدر بے بس اور لاچار انسان کی طرح روتے ہوئے دہائیاں دے رہا ہے کہ پاکستان اس کے ساتھ وشواس گھات کر گیا !!
افغان طالبان آج پہلے سے زیادہ بڑی طاقت کے ساتھ اپنے وطن ہر جگہ موجود ہیں ، جب کہ امریکہ کے بنائی ہوئی تحریک طالبان افغانستان کے علاقے نورستان میں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور حال یہ ہے کہ اسے دس دس لاکھ روپے میں کم عمر بچے افغانستان سے خرید کر پاکستان خود کش حملہ کرنے بھیجنے پڑ رہے ہیں ، وزیرستان کے عوام نے انہیں ریجیکٹ کردیا ہے ،مریکہ کی یہ بوکھلاہٹ ایبٹ آباد حملے اور سلالہ چیک پوسٹ حملے سے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ خیر ان حملوں کا بدلہ پاکستان بقول امر یکہ ’’ موسم سرما ‘‘ میں دوگنا وصول کرلیتا ہے ،اس وجہ سے امریکہ اب تک حیران و پریشان ہے کہ آخر موسم سرما آتے ہی افغان طالبان کی کارروائیاں بڑھ کیسے جاتی ہیں ؟جہاں تک بات افغان عوام کی پاکستان سے فرضی دشمنی کا تعلق ہے تو یہ سب پاک مخالف میڈیا اور افغان حکومت کی کارستانی ہے۔ یہ کبھی سوویت یونین کے پجاری تھے جن کے آقاؤں کو پاکستان نے 80 کی دہائی میں ہی شکست دی اور پھر جب انھوں نے 90 کی دہائی میں پاکستان کے وسطی ایشیاء جانے والے تجارتی قافلوں کو بھارت کی آشیر باد سے تباہ کرنا اور لوٹنا شروع کیا تو پاکستان نے افغان طالبان تیار کئے جس نے ان سے دودوہاتھ کر کے انہیں اپنے بلوں میںجا گھسنے پر مجبور کیا ۔ امریکہ کے آنے کے بعد امریکی تلوے چاٹتے ہوئے یہ پھر حکومت میں آئے ہیں ،لہٰذا تاثر یہی دیا جاتا ہے جیسے پورا افغانستان پاکستان مخالف ہے ۔آج یا کل امریکہ یہاں سے بھاگ جائے گا اور بیرونی شہ پر کام کر نے والا پاکستان مخالف طبقہ افغانستان کے کسی کونے کھدرے میں بھی دکھائی نہ دے گا۔ جہاں تک پاکستان میں موجود اُن منفی عناصر کامعاملہ ہے جو یہاں بیٹھ کر امریکی بولی بولتے ہیں تو یقین رکھیں انہیں جن مقاصد کے لئے ’’ لانچ ‘‘کیا گیا تھا ، وہ مقاصد یہ پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں، جلد یا بدیر جنونی ٹرمپ ان کا حقہ پانی بھی بند کرنے والا ہے اور پھر یہی گھر کے بھیدی 14 اگست پر ملّی اور 6 ستمبر کو قطار میں کھڑے ہوکر جنگی نغمے پڑھتے دکھائی دیں گے ۔ حق بات یہ ہے کہ امریکہ کے دنیا بھر میں معاشی اور فوجی مقاصد ناکام ہو چکے ہیں ،اس کا دبدبے کاسورج ڈھل رہاہے ،کریمیا کو لے کر وہ اپنے اتحادی کو روس سے بچانے میں ناکام رہا ہے ، ساؤتھ چائنا سی کو لے کر وہ اپنے اتحادیوں کے مفادات کا چین سے تحفظ کرنے میں بالکل ناکام رہا ہے ، OBOT( ون بیلٹ ون روڑ) کے سامنے امریکہ بے بس ہو چکا ہے ، سلامتی کونسل جو امریکہ کی کٹھ پتلی تھی، اب اسی کے فیصلے ماننے سے انکاری ہے ، سی پیک خطے کی تقدیر کو بدل رہا ہے، روس اور چین پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں ، مسلم دنیا میں امر یکہ مخالف جذبات پنپ رہے ہیں اور یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اب جل بھی رہا ہے اور غم وغصہ میں بھدک بھی رہاہے۔ اس لئے ٹرمپ کی گیڈر ببھکیاں بے مطلب ٹھہرتی ہیں۔