بزرگ حریت قائید سید علی شاہ گیلانی نے بیرون ریاست میڈیا کے ایک حصہ کے ذریعہ امرناتھ یارا کے حوالے سے کئے جانے والے منفی پروپگنڈا پر جس تشویش اور فکر مندی کا اظہار کیا ہے و ہ نہ صرف واجب اور بر محل بلکہ قابل ستائش ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سالانہ امر ناتھ یاترا کی تاریخ جوں جوں نزدیک آرہی ہے پر نٹ اور ایکٹرانک میڈیا کے ایک حصہ میں یہ تاثر دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ موجودہ بے چینی کے چلتے یاترا پر آنے والے لوگوں کو کشمیر میں خطرات درپیش ہیں۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا کے ذریعہ بہتان تراشیوں کے طومار باندھ کر ممکنہ یاتریوںکے دلوں میں خوف و خدشات پیدا کرنے کی دانستہ کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ امرناتھ یاترا ایک مذہبی معاملہ ہے جو طویل عرصہ سے چلا رہا ہے اور اس تاریخی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ کشمیری مسلمانوں نے ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ یاتریوں کا استقبال کرکے انہیں نہ صرف ہر ممکن سہولت بہم پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرد و گذاشت نہیںکیا ہے، بلکہ جب بھی کسی یاتری کو کسی ناگہانی افتاد کا سامنا رہا ہے، اُسے مصیبت سے باہر نکال کر راحت پہنچانے میں کشمیری مسلمان ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ تاریخ کے اوراق ایسے واقعات سے پُر ہیں جب یاترا کے پہاڑی راستے میں موسمی افتاد کی زد میں آئے یاتریوں کو مصائب سے نکال کر کشمیریوں نے اپنے آپ کو مشکلات میں ڈال کر اُنہیںراحت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا ئے رکھی، یہاں تک کہ ان واقعات کا ذکر کشمیر کے لوک ادب وشاعری میں بھی موجود ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں گزشتہ برس جب سارا کشمیر خاک و خون میں غلطاں تھا اور کشمیری عوام بے بیان مصائب کی چکی میں پس رہے تھے، جموں سے سرینگر آتے ہوئے بجبہاڑہ کے مقام پر یاتریوں کی ایک گاڑی کو حادثہ پیش آیا، جس میں کئی یاتری زخمی ہوگئے تھے، مگر عوام نے کرفیو کی پابندیوں کو توڑتے ہوئے زخمی یاتریوں کو نہ صرف ہسپتال پہنچایا بلکہ کئی ایک کی جان بچانے کی خاطر نوجوان نےخون کا عطیہ بھی دیا۔ جس کے ردعمل میں ان یاتریوں نے کھلم کھلا یہ اظہار کیا تھا کہ کشمیر سے باہر کشمیر اور کشمیریوں کے بار میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے وہ حقائق کے بالکل اُلٹ ہے۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ انتہا پسندوں اور مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر کی جانب سے کشمیر اور کشمیریوں کو بدنام کرنے کی مہم تواتر کے ساتھ چلائی جارہی ہے بلکہ افسوس کا امر یہ ہے کہ نئی دہلی میں بیٹھے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کی جانب سے ان دانستہ کوششوں کا نہ تو کوئی توڑ کیا جاتا ہے اور نہ ہی یاترا کے دوران انسانیت کا سر بلند کرنے والے بھائی چارے اور بقائے باہم کے مظاہر کا اعتراف کرکےانہیںمناسب درجہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ کشمیری عوام اس حوالے سے کسی تعریف و توصیف کے محتاج نہیں کیونکہ یہ انکی سر شت میں شامل ہےاور انسان و انسانیت کی قدر دانی انکار سب سے بڑا قومی سرمایہ رہا ہے،جسکا ہر غیرجانبدار شخص کو اعتراف رہا ہے۔ ایسے حالات میں حریت قائیدین کی جانب سے جو بیانات آئے ہیں وہ نہ صرف قابل ستائش ہیں بلکہ وقت کی ضرورت بھی ، کیونکہ اس سے بھارت بھر میں پھیلے انتہا پسند عناصر کے منفی پروپگنڈا کی دھار کند کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کی یہ اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان بیانات کی خاطر خواہ پذیرائی کرکے بیرون ریاست اس پروپگنڈا مہم کا توڑ کرنے کےلئے ہمہ گیر کوششیںکرنے کے ساتھ اپنی شریک اقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر بھی اس دانستہ شرانگیزی کے منفی اثرات واضح طور پر باور کرے، کیونکہ نہ صرف اس جماعت کے کئی وابستگان بلکہ اس کے قریب تصور کئے جانے والے متعدد حلقے اس مہم کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس صورتحال کے چلتے ایسے عناصر کی جانب سے جموں میں فرقہ وارانہ ٹکرائو کو ہو ا دینے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں، جسکا مدعا و مقصد یہی ہوسکتا کہ وادی میں اس کا ردعمل ظاہر ہواور انکی امیدیں بھر آنے کی کوئی سبیل پیدا ہوسکے۔یہ وقت ہے انتظامیہ کے بیدا رہونے کا اور اس میں کسی بھی قسم کی پہلو تہی مضرت رساں ثابت ہوسکتی ہے۔ وادی کشمیر کے عوام مذہبی و سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر یاتریوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہتے آئے ہیں اور یہ روایت ہر حال میں برقراررہنی چاہئے۔ تاکہ خونریزی کی سیاست پر اپنی سلطنت تعمیر کرنے والے عناصر ناکام و نامراد ہو جائیں۔اس تناظر میں مزاحمتی خیمہ کا کھلا اور صاف و شفاف اظہار نہ صرف تقویت بخش ہے بلکہ راہ نما بھی۔عوام کےلئے بھی اور ریاستی حکومت کےلئے بھی۔