امر ناتھ یاترا 2018شروع ہوچکی ہے ۔سخت سیکورٹی حصار میں 109گاڑیوں اور 4موٹر سائیکلوں پر سوار 2ہزار995یاتریوں پر پہلا قافلہ جموں سے سرینگر کی طرف روانہ ہوا ،جس کو ریاستی گورنر کے مشیروں کے وجے کمار اور بی بی ویاس نے جموں کے یاتری نواس سے ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔2ماہ تک جاری رہنے والی یاترا کیلئے تاحال سوا دولاکھ سے زیادہ یاتریوں نے اپنی رجسٹریشن کروائی ہے اور انتظامی مشینری کی جانب سے بھی یاتریوں کی حفاظت اور قیام و طعام کے خاطر خواہ انتظامات کئے گئے ہیں۔سطح سمندر سے 13000فٹ کی بلندی پر واقع ایک پہاڑی غارمیں گرما کے دوران بننے والی ایک برفانی شبیہ کو بھگوان شو کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ شبیہ بھگوان شِو کی قوت تولیدکی تمثیلی صورت ہے، جسے ہندو عقیدتمند پوجتے ہیں کیونکہ شِو جی کو تخلیق اور تولید کا بھگوان مانا جاتا ہے۔ ہندؤں کے یہاں اس غار اور اس میں موجود برفانی شول لنگم کی حددرجہ رُوحانی اہمیت ہے اور قدیم زمانے میں لوگ ہزاروں میل کا سفر پیدل کرکے غار کے درشن کرنے آتے تھے اور اس وقت کے کٹھن اور تکلیف دہ سفر میں کئی لوگ فوت بھی ہوجاتے تھے۔ لیکن یہ سرگرمی کشمیر کے سماجی یا سیاسی منظرنامہ کے بالکل حاشیہ پر تھی اور اس یاترا میں بیشتر سادھو ستوں کی شرکت ہوتی تھی ۔ڈوگرہ مہاراجوں نے پہلی مرتبہ اس یاترا کی سرکاری سرپرستی کا ذمہ لیا ۔ 1947میں ڈوگررہ حکومت کی سیاسی اور سماجی اعتباریت ختم ہوگئی تو یاترا پھر پرانی نہج پر واپس آگئی اور عوامی تعاون سے بحسن و خوبی چلتی رہی۔1990میں حالات کی خرابی کے بعد عمومی خوف ہراس کے بہ سبب یاتریوں کی تعداد ضرور کم ہوئی لیکن عوامی سطح پر ہمیشہ اسکا استقبال کیا جاتا رہا اور پھر دلی میں واجپائی کی حکومت بنتے ہی فاروق عبداللہ کی حکومت نے امرناتھ یاترا کو آئینی حیثیت دیتے ہوئے، خودمختار شرائن بورڈ کا قیام عمل میں لایا اور یہ شرط بھی لگا دی کہ گورنر ہی اس کی سربراہی کرے گا۔ دوسری جانب بورڑ کے آئین میں یہ شرط لگا دی گئی کہ شرائن بورڈ کا چیرمین صرف اور صرف ہندو ہوگا۔بعدازاں شرائن بورڑ ہی یاترا کے انتظام و انصرام کا خودمختار ادارہ قرار پایا، تاہم یاترا کے بندوبست، پہلگام اور سونہ مرگ کے راستوں کی دیکھ ریکھ، صحت و صفائی، مواصلاتی سہولیات اور دوسرے انتظامات کے لئے کشمیری انتظامیہ کے تقریباً سبھی محکمہ یاترا سے کئی ماہ قبل ہی سرگرم ہوجاتے ہیں۔اس میں بھی کوئی ہرج نہیں کہ سرکاری انتظامیہ کسی مذہبی زیارت گاہ کی دیکھ ریکھ کرے اور کرنا بھی چاہئے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی قریب تک کشمیری مسلمان ہی اس یاترا کی دیکھ ریکھ کررہے تھے اور آج بھی بھلے ہی امرناتھ شرائن بورڈ کی صورت میں ایک خود مختار ادارہ اس کی نگرانی کررہا ہو لیکن جس طرح آج بھی کشمیر کی مسلم آبادی یاترا کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ،وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لاکھ اشتعال انگیزیوں کے باوجود کشمیر کا مسلمان فرقہ پرست ذہنیت کا شکار نہیں ہوا ہے بلکہ وہ ابھی بھی کشمیری روایات کا دامن پکڑے ہوئے ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصہ سے جان بوجھ کر ایسی ہوا پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیری یاترا کے خلاف ہیں جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔آج جب یاترا پر جنگجوئوں کے حملوں کے خدشات مختلف سیکورٹی اور سراغ رساں اداروںکی جانب سے جاری کئے جارہے تھے تو عین وقت پر پہلے حزب المجاہدین اور اب لشکرطیبہ نے یاتریوںکو مہمان قرار دیکر یاترا پر حملوں کے ارادوں کو قطعی طور مسترد کر دیا ہے، جو ایک خوش آئند بات ہےاور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔عسکری جماعتوںنے بروقت یاترا کے حوالے سے اپنا موقف واضح کردیا ہے اور کہا کہ وہ مذہبی عقائد کی انجام دہی میں رکاوٹ نہیں بنیں گے ۔اس سے یقینی طور پر نہ صرف سیکورٹی اپریٹس بلکہ بذات خود کشمیری عوام نے راحت کی سانس لی ہے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اگر یاترا کے ساتھ کوئی ناخوشگوارواقعہ پیش آیا تو انہیں کٹہرے میں کھڑا کرنے کیلئے الٹرا نیشنل ملکی میڈیا کھڑا ہوجائے گا اور پھر ایک پوری آبادی کو جنونی ثابت کرنے کیلئے زمین و آسمان کے قلابے ملائے جائیں گے ۔عسکری قیادت کی وضاحت کے بعد اب انتظامی مشینری کے لئے لازمی بن چکا ہے کہ وہ ایسے عناصر کی سرکوبی کریں جو اس کے باوجود بھی کشمیر اور کشمیری عوام کو فرقہ پرستوں اور شد ت پسندوں کے طور پیش کرنے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہی عناصر دراصل کشمیر اور باقی ملک کے درمیان ایک ایسی خلیج قائم کرنا چاہتے ہیں جو پھر پاٹنا مشکل بن سکتی ہے کشمیری ہمیشہ یاترا کی کامیابی کے ساتھ انجام دہی میں پیش پیش رہے ہیں بلکہ وہ اس کو اپنے کثیر الجہتی تمدن کا حصہ مانتے ہیں تاہم کچھ عناصر ایسے ضرور موجود ہیں جو معاملات کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے کے درپے ہیں تاکہ ملک کے عوام پر یہ باور کرایا جاسکے کہ وادی میں مذہبی احترام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ۔گورنر انتظامیہ چونکہ مسند اقتدار پر براجماں ہے تو امید کی جانی چاہئے کہ انتظامی سربراہ اور شرائن بورڈ کے سرپرست ہونے کے ناطے این این ووہرا اس پروپگنڈا کو زائل کرنے کی کوشش کری گے اور عسکری جماعتوں کے وضاحتی بیانات کے بعد اب اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یاترا احسن طریقے سے بنا کسی ناخوشگوار واقعہ کے اختتام پذیر ہو تاکہ اُن عناصر کے منہ بند ہوسکیں جنہوںنے یاترا کے ساتھ طرح طرح کے خدشات جوڑ رکھے ہیں ۔