سرینگر// سوپور قتل عام کی25ویںبرسی پر سانحہ سے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے انٹرنیشنل فورم فار جسٹس نے اس بات کا انکشاف کیا کہ حکومت کی طرف سے ابتداء میں سوپور واقعہ کی تحقیقات کیلئے قائم کردہ جسٹس امرجیت کمیشن نے سرے سے ہی کوئی تحقیقات نہیں کی ہے۔6جنوری1993کو سوپور میں پیش آئے خونین واقعہ کی برسی پر فورم نے’’سوپور،خون میں شرابور‘‘ کے نام سے انگریزی اور اردو زبانوں میں ایک’’تحقیقی رپورٹ‘‘ پیش کی۔سرینگر کی پرتاپ پارک میں رپورٹ پیش کرنے کے دوران فورم کے سربراہ اور اور حقوق انسانی کارکن محمد احسن اونتو کے علاوہ سیول سوسائٹی کارکن اورکالم نویس عبدالمجید زرگر،سماجی کارکن و شاعر ظریف احمد ظریف کے علاوہ تاجر لیڈر سجاد گل بھی موجود تھے۔ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ واقعہ کے بعد ریاستی سرکار نے پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس امرجیت کی سربراہی میں یک نفری کمیشن کو تشکیل دیا تھا،تاہم مذکورہ کمیشن نے صرف ایک بار وادی کا دورہ کیااورکوئی تحقیقات نہیں کی۔ سوپور کے حوالے سے منظر عام پر لائی گئی اس رپورٹ میں ’’سی بی آئی‘‘ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے’’ ریاستی حکومت نے اس واقعہ کی تحقیقات کیلئے جسٹس امرجیت کی سربراہی میں یک نفری کمیشن کو بھی تشکیل دیا۔اس سلسلے میں کوشش کی گئی کہ اس تحقیقات کی کاپی حاصل ہو،تاہم حکومت ہند نئی دہلی کے ڈائریکٹر،محکمہ امور جموں کشمیر،اے کے سری واستو نے بتایا کہ سوپور واقعے کی تحقیقات کیلئے جسٹس چودھری کی سربراہی میں کمیشن آف انکوائری کی معیاد30ستمبر1994کو پوری ہوئی اور اس کے بعد اس میں توسیع نہیں کی گئی۔اس لئے کمیشن آف انکوائری کی طرف سے تحقیقاتی عمل شروع ہی نہیں ہوا۔اس لئے اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس سلسلے میں کوئی رپورٹ پیش کی گئی۔انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے سربراہ محمد احسن اونتو نے کہا کہ25سال سے متاثرین انصاف کے منتظر ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ2013میں 20برس کے بعد کیس کو بند کرنے کیلئے عدالت سے رجوع کیا گیاکہ تمام پہلوئوں سے کیس کی تحقیقات کی گئی،تاہم اونتونے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی’’منصفانہ،مؤثر ،مناسب اور آزادانہ تحقیقات عمل میں نہیں لائی گئی اور حقیقت میں سی بی آئی ملوث بی ایس ایف اہلکاروں کو بچانے میں لگی ہے‘‘۔بشری حقوق کارکن نے کہا کہ اس حوالے سے مرکزی تفتیشی بیورو نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ کوئی بھی مقامی شہری یا چشم دید گواہ اس کیس میں’’رضاکارانہ طور پر سامنے نہیں آیا‘‘یہ بیان غلط ہے۔مزید اس بیان سے متاثرین،زخمیوں اور چشم دید گواہوں کے دل بھی رنجیدہ ہونگے،جو ہمہ وقت،تحقیقاتی ایجنسیوں،بالخصوص سی بی آئی کو تعاون دینے کیلئے پیش پیش رہتے ہیں۔ اونتو نے کہا کہ سی بی آئی نے کھبی بھی متاثرین اور زخمیوں کے علاوہ چشم دید گواہوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ظریف احمد ظریف نے 6جنوری1993کو ایک خون آشام دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ3دہایوں سے بیسیوں قتل عام کشمیر میں کئے گئے اور آج تک کسی بھی ملوث اہلکار کو سزا نہیں دی گئی۔ کالم نویس اور سیول سوسائٹی کارکن عبدالمجید زرگر نے کہا کہ25برس گزر گئے اور اب بھی متاثرین،انصاف کے متلاشی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج تک کسی بھی اہلکار کو سزا نہیں دی گئی،جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مجرموں کو سرکاری پشت پناہی حاصل ہے۔