شعبہ طب میں اعلیٰ تعلیم کےلئے منعقد ہونے والے امتحانات جو عرفِ عام میں نیٹ این ای ای ٹی کے نام سے موسوم ہیں کے انعقاد کےلئے ریاست جموںوکشمیر میں دو مراکز مختص کئے گئے ہیں ، جو دونوں صوبہ ٔجموں میں ہونگے۔ اس طرح پھر ایک مرتبہ خطۂ کشمیر سے تعلق رکھنے والے اُن امیدواروں سے، جو طب اور جراحی کے شعبوں میں ماسٹرس ڈگری اور مختلف ڈپلوما حاصل کرنے کے خواہاں ہیں، کے ساتھ کھلم کُھلا نا انصافی کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ مرکزی اداروں کی جانب سے ایسی امتیازی پالیسی اختیار کیوں کی جارہی ہے، یہ ایک پریشان کن بات ہے اور اُن سیاستدانوں کے لئے ایک سوال ہے جو یہ کہتے تھکتے نہیں کہ ریاستی عوام ہر معاملے میں مرکز کے مرہون احسان و منت ہیں ۔گزشتہ برس بھی ایسا ہی ہوا اور عوامی حلقوں نے حکومت پر بار باریہ باور کرنے کی کوشش کی تھی کہ ایسا طریقۂ کار نہ صرف ریاست کے اندر خطوں کے درمیان امتیازی پالیسی کو پروان چڑھانے کا سبب بن رہا ہے بلکہ اس سےخطہ کشمیر کے اُمیدواروں کوشدید مشکلات کا سامنا درپیش رہتا ہے، کیونکہ جموںکے مراکز میں نشستیں الاٹ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں امتحانات کےلئے دیگر ریاستوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ حالات میں بھی بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے، کیونکہ جموںاور سانبہ میں قائم کئے گئے امتحانی مراکز کی نشستیں پُر ہونے کے بہ سبب آن لائن فارم بھرنے والوں کو بیرونی ریاستوں میں نشستیں مل رہی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ بیرون ریاست سفر اور قیام ہر ایک امیدوار کی استطاعت کی بات نہیں ہوسکتی لہٰذا اس وجہ سے متعدد امیدوار امتحانات میں بیٹھنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ میڈیا رپوٹوں کے مطابق فی الوقت نہ صرف جموں بلکہ دہلی پنجاب اور ہریانہ کی ریاستوں میں بھی نشستیں پُر ہوگئی ہیں، لہٰذا اُمیدواروں کےلئے دور دراز ریاستوں کا سفر کرنا امر مجبوری بن گیا ہے۔ گزشتہ برس بھی ایسا ہی ہوا تھا جس پر امیدواروں نے زبردست واویلا مچایا تھا مگر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مرکزی ادارے ریاستی حکومت کے مطالبات کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لے رہے ہیں، حالانکہ دیگر ریاستوں کے ساتھ ایسا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اب کی بار چھ ریاستوں کےلئے نشستوں میں اضافہ کیا گیا ہے، حالانکہ ریاستی سرکار کئی برسوں سے ایسا مطالبہ پیش کرتی رہی ہے مگر ہر مرتبہ مایوسی کا سامنا رہا ہے۔ یہ امر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مرکزی سرکار کے ادارے ایک امتیازی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اس امتحان میں شامل ہونے والے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد اُن ڈاکٹروں پر مشتمل ہے جو وادی کے مختلف ہسپتالوں ، خاص کر دور دراز علاقوں کے طبی مراکز ، میں خدمات کی انجام دہی پر مامور ہیں اور جب انہیں امتحانات میں شرکت کےلئے دور دراز ریاستوں کا سفر درپیش ہوگا تو یقینی طور پر ان مراکز میں بیماروں کے علاج معالجہ کا سلسلہ متاثر ہوگا ، جس سے عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا، خاص کر ایسے موسم میں جب لوگوں کو خشک سالی کے جانبی اثرات کی وجہ سے نت نئے عارضے درپیش ہو رہے ہیں ۔فی الوقت کشمیر میں فیلو کی شکایات کا سامنا ہے اور یہ انتہائی تشویشناک امر ہے کہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ وادی کشمیر میں خنزیری بخاراین ون ایچ ون تیزی کے ساتھ پھیل رہاہے اور اس کےتئیں کسی قسم کی کوتاہی کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اب تک اس خطرناک مرض سے پانچ مریضوں کی موت بھی واقع ہو چکی ہے۔ چونکہ خشک سالی ٹوٹنے کے آثار ابھی نظر نہیں آرہے ہیں ، لہٰذا حکومت کو اس حوالے سے چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں معالجین کی ایک اچھی خاصی تعداد طویل چھٹی پر چلی جائے تو یہ عام انسان کے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ حکومت مرکزی اداروں کے ذریعے ایسے فیصلے، جو ریاستی عوام کے لئے مصائب و مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں، روکنے یا ان میں ترمیم کروانے میں کیوں ناکام ہو رہی ہے، یہ عام انسان کےلئے تشویش کا امر ہے۔ خطہ کشمیر کے تئیں وقت وقت پر ایسی ہی امتیازی نوعیت کی پالیساں برہمی اور برگشتگی کی وجوہات میں اضافہ کا سبب بنتی رہی ہیں۔ آج کے حالات میں جب مرکزی حکومت کشمیری عوام کے دل جیتنے کی پالیسی کے دعوے کرتے ہوئے تھکتی نہیں، اُسے ایسے امتیازکا جائزہ لیکر عوام کو درپیش مشکلات کا ازالہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہونا چاہئے ،نہ کہ وہ طریقہ کار اختیار کیا جائے جو جذباتی طور پر دوریوں میں اضافہ کا سبب بن جائے۔