طفیل پانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ مقامی مسجد میں ادا کرتا تھا۔طویل رکوع وسجدے کرتا لمبی لمبی دعائیں،عاجزی و انکساری کے ساتھ، یہ سب اس کا معمول تھا۔ایک دن میں نے طفیل سے اس کی وجہ پوچھی،تو کہا کہ دراصل امتحان قریب ہے اوراس سال12thہے ،یہ میری زندگی کا قیمتی سال ہے،یہ سال میری مستقبل کا فیصلہ کر دے گا۔اس لیے اللہ کے حضور جاتا ہوں، کہ میرے پیپر اچھے ہوں،اور Distinctionکے ساتھ آگے بڑھوں۔
زیادہ دن نہیں گزرے کہ طفیل مسجد میں نظر نہ آیا۔ بسیار تلاش کے بعدایک دن اچانک میں نے اسے مقامی گراؤنڈ میں فٹبال کھیلتے ہوئے دیکھا۔میں نے اندازہ لگایا کہ شاید اس کی مراد پوری ہوچکی ہے۔
ایک آدھ مہینہ گزرا کہ طفیل پھر سے مسجد کی زینت بڑھانے لگا۔ پھر سے نمازیں، لمبی دعائیں اور عاجزی و انکساری۔۔۔۔۔۔۔!
اب کی بار میں نے پوچھا اب کوئی خاص بات ہے جو۔۔۔۔۔!
طفیل: جی، اگلے ہفتے ہمارا رزلٹ آؤٹ ہونے جارہا ہے۔
کاش ہم سمجھ پاتے کہ زندگی بذاتِ خود ایک امتحان ہے۔ ہر کوئی اس عارضی دنیا میں ١/٢ ٢ گھنٹے کا پیپر solve کر رہا ہے۔ کوئی اللہ کا فرمان بردار بن کر اور کوئی نافرمان بن کر۔امتحان ختم ہی رزلٹ آؤٹ ہو گا۔مارکس شیٹ یا تو داییں ہاتھ میں دیا جائے گا یا بائیں ہاتھ میں۔اس تصور کے ساتھ اگر ہم زندگی بسر کر یں گے ،تو دنیا کا ہر امتحان آسان ہو گا۔تب ہم پر" " امتحان نمازی" کا فقرہ کوئی نہیں کسی گا۔
رابطہ؛کہرو ہندوارہ ،موبائل نمبر،9906663706