محمد عرفات وانی
انسانی زندگی کے مختلف مراحل میں کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جو نہ صرف شخصیت کو تراشتے ہیں بلکہ مستقبل کا نقشہ بھی کھینچتے ہیں۔ ان میں تعلیمی امتحانات کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ چاہے وہ NEET، JEE، سول سروسز، SSB، بورڈ کے امتحانات یا دیگر مقابلہ جاتی ٹیسٹ ہوں – یہ اب صرف تعلیمی جانچ کے پیمانے نہیں رہے، بلکہ نفسیاتی دباؤ، جذباتی کشمکش، سماجی توقعات، خاندانی تمناؤں اور ذاتی شناخت کی علامت بن چکے ہیں۔ان امتحانات میں کامیابی یا ناکامی صرف طالب علم ہی کو نہیں بلکہ اس کے خاندان، برادری اور بسا اوقات پورے معاشرے کو متاثر کرتی ہے۔
۱۔ انسانی ذہن پر نفسیاتی اثرات
جیسے ہی امتحانی موسم آتا ہے، ہزاروں طلبہ بے چینی، بے خوابی، تیز دھڑکن، اور خود سے نفرت جیسے احساسات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے مطابق، امتحانی دباؤ نوجوانوں میں ڈپریشن، اضطراب، اور خود اعتمادی کی کمی کا بڑا سبب ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی 2022کی رپورٹ کے مطابق، تعلیمی ناکامی نوجوانوں (15تا 29سال) میں خودکشی کی تیسری بڑی وجہ ہے۔والدین کی توقعات، نظام تعلیم کی سختی، مسابقتی ماحول، اور سماج کی نظریں نازک ذہنوں کو کچل دیتی ہیں۔ برطانوی ماہرِ نفسیات پروفیسر سوزن بارنیٹ کہتی ہیں:امتحان کا خوف محض ناکامی کا نہیں بلکہ شناخت کے کھو جانے کا خوف ہے۔گویا امتحان کا خوف صرف تعلیمی پریشانی نہیں بلکہ شناختی بحران کا آغاز ہوتا ہے۔
۲۔ والدین کی توقعات اور خاندانی دباؤ
ہندوستان، بنگلہ دیش، اور کشمیر جیسے خطوں میں والدین اپنی اولاد سے غیر معمولی توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ جب یہ پوری نہ ہوں تو ناراضی، جذباتی بلیک میلنگ اور بعض اوقات تضحیک کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 76 فیصد طلبہ صرف اپنے والدین کو خوش کرنے کے لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں، نہ کہ اپنی دلچسپی یا خوابوں کی بنیاد پر۔یہ دباؤ احساسِ کمتری، الجھن اور مایوسی کو جنم دیتا ہے۔ کئی بچے یہ سمجھنے لگتے ہیں:”اگر میں ناکام ہوا تو والدین مجھ سے محبت نہیں کریں گے”۔اور یہ سوچ اکثر جان لیوا انجام تک جا پہنچتی ہے۔
۳۔ سماجی رویے اور ناکامی کا داغ
ہمارا معاشرہ کامیاب طلبہ کو ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے، جبکہ ناکام ہونے والوں کو ناکارہ تصور کرتا ہے۔ نتائج کے بعد سوشل میڈیا پر تبصرے، رشتہ داروں کی چبھتی نگاہیں، اور محلے کی سرگوشیاں ایک طالب علم کی خود اعتمادی کو پارہ پارہ کر دیتی ہیں۔نامور سماجی ماہر ڈاکٹر ایرک اینڈرسن لکھتے ہیں:”ترقی پذیر معاشروں میں تعلیمی ناکامی کو ایک اخلاقی ناکامی سمجھا جاتا ہے، نہ کہ ایک وقتی یا حالات پر مبنی نتیجہ”۔یعنی ناکامی کو کردار کی خرابی سمجھا جاتا ہے، حالات کی مجبوری نہیں۔
۴۔ نظام تعلیم کی خامیاں
ایک بنیادی سوال یہ ہے:کیا ہمارا نظام تعلیم واقعی طالب علم کی قابلیت کا درست پیمانہ ہے؟ جب امتحانات رٹّے، نمبروں اور ایک دن کی کارکردگی پر مبنی ہوں، تو یہ اصل ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کی کیا قدر کریں گے؟عالمی ماہرِ تعلیم سر کین رابنسن کہتے ہیں:
“ہمارا نظام تعلیم تخلیق کو قتل کر رہا ہے، کیونکہ یہ تجسس کے بجائے اطاعت کو فوقیت دیتا ہے”۔بھارتی ماہرِ تعلیم پروفیسر انیتا راماسوامی مزید کہتی ہیں:ہمیں نمبروں پر مبنی نظام سے ذہن پر مبنی نظام کی طرف جانا ہوگا۔
۵۔ ذہنی صحت اور خودکشی کا خطرہ
امتحانات میں ناکامی کے بعد بڑھتی ہوئی خودکشی کی شرح ایک المیہ ہے۔ کشمیر، مہاراشٹرا، دہلی، اور اترپردیش جیسے علاقوں میں ہر سال درجنوں طلبہ خودکشی کرتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ اوکے مطابق، سالانہ 800,000 افراد خودکشی کرتے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد طلبہ کی ہوتی ہے۔کینیڈین ماہرِ نفسیات ڈاکٹر جوناتھن ہل کہتے ہیں:”تعلیمی دباؤ کے زخم نظر نہیں آتے، مگر جسمانی زخموں سے کہیں زیادہ مہلک ہوتے ہیں”۔یہ زخم نظر نہیں آتے، لیکن جان لے لیتے ہیں۔
۶۔ میڈیا، رینکنگ کلچر، اور مقابلے کی دوڑ
میڈیا کی جانب سے ٹاپرز کی مسلسل تشہیر اور ان کی ستائش دیگر طلبہ میں احساسِ محرومی پیدا کرتی ہے۔ ایک طالب علم جس نے 80 فیصد نمبر حاصل کیے ہوں، اسے اس لیے ناکام کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا نام “ٹاپرز” کی فہرست میں نہیں آیا۔رینکنگ کلچر نے تعلیم کو ایک دوڑ بنا دیا ہے، جہاں مقصد علم نہیں بلکہ نمبر ہیں۔
۷۔ متبادل راہیں، مہارتیں اور غیر تعلیمی صلاحیتیں
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر فرد کا راستہ مختلف ہوتا ہے۔ NEET یا JEE میں ناکامی کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی شخص زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ تھامس ایڈیسن، ابراہم لنکن، اور ایلون مسک جیسی شخصیات نے رسمی تعلیم سے ہٹ کر دنیا کو حیران کیا۔ہر بچے میں کوئی نہ کوئی صلاحیت ضرور ہوتی ہے، جو شاید تعلیمی دائرے سے باہر چمکے۔ ہمیں بچوں کو یہ یقین دلانا چاہیے کہ ایک امتحان کا نتیجہ زندگی کے تمام دروازے بند نہیں کرتا۔
۸۔ والدین، اساتذہ اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری
ہم سب کو مل کر اپنے بچوں میں صبر، حوصلہ اور خود اعتمادی پیدا کرنی ہے۔ والدین کو محبت و حوصلہ دینا ہوگا، اساتذہ کو طلبہ کے جذبات کو سمجھنا ہوگا، اور معاشرے کو افراد کو صرف کمزوریوں سے نہ ناپنا ہوگا۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا بالکل درست ہے:”تعلیمی اداروں میں ذہنی صحت کا فروغ ایک پالیسی ہونا چاہیے، نہ کہ ایک آپشن”۔
اختتامیہ:امید، حوصلہ، اور زندگی کی وسعتیں
زندگی کسی ایک امتحان تک محدود نہیں، نہ ہی کامیابی کسی ایک نتیجے سے طے ہوتی ہے۔ اصل کامیابی ہر ٹھوکر کے بعد سنبھلنے، اور سفر جاری رکھنے میں ہے۔ اللہ پر یقین، دعا، محنت، اور صبر ایسے دروازے کھول دیتے ہیں جن کا تصور بھی ممکن نہیں ہوتا۔جیسا کہ شاعر جون ایلیا نے کہا تھا:کچھ نہیں ہو سکا ہمارے ساتھ، پھر بھی ہم کتنے کامیاب ہیں۔
یہی کامیابی کی اصل روح ہے۔ زندگی کا سچا سبق یہ ہے کہ ناکامی کو سیڑھی بنایا جائے، قبر نہیں۔ یہ پیغام صرف طلبہ کے لیے نہیں بلکہ والدین، اساتذہ، پالیسی سازوں اور پورے معاشرے کے لیے ہے۔ ہمیں مل کر ایسا ماحول بنانا ہے جہاں ہر ناکامی ایک نیا آغاز ہو، انجام نہیں۔
( مضمون نگار کوچمولہ ترال سے تعلق رکھنے والے ایک پرجوش قلمکار، سماجی کارکن اور طب کے طالب علم ہیں۔ وہ سماجی اصلاح اور عوامی شعور بیدار کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے مؤثر تحریری انداز سے معاشرتی تبدیلی کا خواب لیے سرگرم عمل ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے)