سبزار احمد بٹ
حال ہی میں جموں کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے بارھویں جماعت کے نتائج کا اعلان کیا ہے۔ جس میں لڑکیوں کی کامیابی کی شرح 68 فی صد جبکہ لڑکوں کی کامیابی کی شرح 61 فی صد رہی۔ نتائج اگر چہ تسلی بخش قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ تاہم اس سے بہتر نتائج کی امید کی جا سکتی تھی ۔خیر جن طلاب نے کامیابی حاصل کی ہے ۔انہیں ،ان کے والدین اور ان کے اساتذہ کو مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا۔اور جو طلاب کسی وجہ سے میدان مارنے سے رہ گئے ہیں ۔انہیں بھی گھبرانانہیں چاہئے ۔ کیونکہ انسان ٹھوکروں سے ہی سنبھل کر چلنا سیکھتا ہے ۔ دنیا میں ایسی ہزاروں بلکہ لاکھوں مثالیں موجود ہیں جہاں انسان زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر ناکام ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنی اُس ناکامی کو اپنی ہار کا نہیں بلکہ اپنی جیت کا سامان بنایا ہے. وہ اپنی غلطیوں سے تھک ہار کر نہیں بیٹھے ہیں بلکہ انہوں نے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھا ہےاور آئندہ کے لیے پہلے سے بہتر حکمت عملی اپنائی ہے۔ایسے طلاب کو کوئی بھی الٹا سیدھا قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں بلکہ پھر سے کمر بستہ ہونا ہے اور دل لگا کر محنت کرنی ہے ، وہ دن دور نہیں جب وہ بھی اپنی کامیابی کی خوشی منائیں گے۔حالات سے ڈرنے والے اور خدا نخواستہ کوئی الٹا قدم اُٹھانے والے بزدل ہوتے ہیں اور بزدلوں سے معاشرے کو کوئی امید نہیں ہوتی ۔ مجھے اپنے طلاب پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ بزدل نہیں ہیں بلکہ ان میں حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔میں والدین سے بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ ایسے وقت میں اپنے بچوں کا سہارا بنیں اور انہیں حوصلہ دیں،یہ وقت طعنے دینے کا نہیں حوصلہ دینے کا ہے۔
ہوش تو ان طالب علموں کو بھی کرنا ہے جو کامیاب ہوئے ہیں ۔کیونکہ یہ ان کے لیے کوئی آخری کامیابی نہیں ہے ۔ بلکہ انہوں نے کامیابی کا پہلا پائدان پار کیا ہے۔تاریخ نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہےجو معمولی کامیابی سے مغرور ہو گئے اور کہیں کے نہیں رہے۔لہٰذا ہر قدم سوچ سمجھ کے اٹھانا ہے تاکہ قوم کو اس سرمائے پر فخر ہو۔ سوال پاس فیل کا نہیں ہے ، بلکہ ان نتائج کے بہت سارے محرکات ہوتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ موجودہ معاشرہ ہمیں کس جانب لے رہا ہے ۔آجکل کے والدین کی بہت بڑی کمزوری ہے کہ وہ اپنی انا کی خاطر اپنے معصوم بچوں کو بلی کا بکرا بنا رہے ہیں ۔کیونکہ اب والدین ہی طے کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کو کس میدان میں آگے جانا ہے اور وہ اس ضمن میں بچوں کی رائے جاننا بھی گوارہ نہیں کرتے ،جو بہت بڑا المیہ ہے۔ بچوں کو پہلے ہی ذہن میں یہ چیز بھر دی جاتی ہے کہ آپ کو بس ڈاکٹر ہی بننا ہے۔بنا جانے کہ آیا بچے کی رغبت یا رجحان اس جانب ہے بھی یا نہیں ۔جو بچے کسی اور مضمون کی طرف راغب ہوتے ہیں یا اس مضمون میں بہتر کرنے کی ان میں صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ انہیں جب وہ مضمون لینے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی ہے تو ایسے میں ناکام ہونا یا غیر متوقع نتائج کا آنا ایک فطری عمل ہے اور ایسے بچے اگر کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے ہیں۔لہٰذا والدین کو چاہئے کہ بچوں پر اپنی رائے ٹھونسنے کے بجائے ان کی رائے کا احترام کریں ۔کیونکہ بالآخر پڑھنا تو بچوں کو ہے والدین کو نہیں ۔دوسری بات جو بے حد تکلیف دیتی ہے وہ یہ ہے کہ آجکل کے بچے اپنا زیادہ تر وقت مختلف سوشل میڈیا سائیٹس پر گزارتے ہیں اور یہ رجحان تشویشناک صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے ۔ ۔طلاب کے لیے یہ وقت خرافات ،موج مستی اور سوشل میڈیا پر فضول کاموں میں گزارنے کے لیے نہیں ہے بلکہ محنت کر کے اپنی زندگی بنانے کے لیے ہے ۔ آجکل کے نوجوانوں کے مستقبل کو سوشل میڈیا کی نذر ہوتے ہوئے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ یہی قوم کا اصل سرمایہ ہے ، اگر یہ سرمایہ اپنی زندگی کے اس قیمتی حصے کو اس طرح سے ضائع کریں گے تو قوم کا مسقبل کیا ہوگا۔ہم سب کو اس سنجیدہ مسئلے پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔والدین، اساتذہ اور باقی ذمہ داران کو اپنی اپنی جگہ پر بچوں کو ان خرافات سے واپس لانے کی کوشش کرنی چاہئے اور بچوں کو یہ سمجھانا چاہئے کہ یہی عمر ہے جب آپ بھی اپنا نام دنیا کے کامیاب ترین لوگوں میں لکھوا سکتے ہیں ۔شرط یہ ہے کہ آپ محنت کریں گے اور باقی خرافات سے خود کو دور رکھیں گے ۔ اس امتحان میں کم نمبرات لینے والے یا میدان نہ مارنے والے طلاب سے فقط ایک بات کہنا چاہوں گا کہ یہ کوئی آخری موقع نہیں تھا ان کے لیے ،بلکہ ان کے سامنے ہزاروں منزلیں ہیں جنہیں پار کر کے ان طلاب کو کامیابی کے جھنڈے گاڑنے ہیں۔
ایسے بچے آج ہی طے کر لیں کہ محنت کرنی ہے اور اپنا نام روشن کرنا ہے، یقین جانئے کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ بس نا امید نہیں ہونا ہے ،کوشش کرنی ہے ۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔