سرینگر//نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ نے وادی میں بورڈ امتحانات ملتوی کئے جانے پر جاری تعطل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریاستی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ طلباء و طالبات پر عذاب تاری کرنے کے بجائے کھلے ذہن کے ساتھ ان بچوں کے ساتھ بات کریں۔ حکومت کو امتحانات کے انعقاد کو وقار کا معاملہ بنانے سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ انا اور ہٹ دھرمی کیلئے امتحانات کا انعقاد طلباء و طالبات کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہوگا۔ طلباء و طالبات کے مختلف وفود عمر عبداللہ سے اُن کی رہائش گاہ پر ملے اور انہیں زبردستی امتحانات کے انعقاد کے بارے میں تفاصیل بتائیں۔ کارگذار صدر نے کہا کہ ’’ہمارے نونہال طلباء و طالبات، جو اس وقت نہایت اہم کلاسوں میں زیر تعلیم ہیں ، ہماری ہمدردی اور اخلاقی حمایت کے مستحق ہیں،یہ بچے موجودہ بے چینی اور افراتفری سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں کیونکہ کیریئر کے اہم پڑائو پر اُن کی تعلیمی سرگرمیوں پر بریک لگ گئی ۔ بدقسمتی سے ریاستی حکومت نے 4ماہ کے کلاسز ضائع ہونے کے باوجود وقت پر امتحانات لینے کے اپنے یکطرفہ فیصلے کی تعمیل کیلئے طلاب کو ڈرانے اور دھمکانے کا رویہ اختیار کر رکھا ہے، جو قابل افسوس اور قابل تشویش ہے۔ موجودہ بے چینی سے ہمارے بچے ذہنی دبائو کے بھی شکار ہوئے ہیں اور موجودہ حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویہ سے ان پر مزید دبائو بڑھایا جارہا ہے‘‘۔ کارگذارصدر نے کہا کہ وقت پر امتحانات لینے کے حکومت فیصلے کیخلاف طلباء و طالبات جو سوالات اٹھارہے ہیں وہ کسی بھی زاوائے سے غلط نہیں کیونکہ امسال بچے صرف 80دن سکول جا پائے ہیں جبکہ ایک تعلیمی سال میں 180دن سکول میں حاضری لازمی ہوتی ہے۔ طلباء و طالبات اپنا سیلبس مکمل نہیں کرپائے ہیں کیونکہ گذشتہ چار مہینوں سے نہ صرف سکول بلکہ نجی ٹیوشن مراکز بھی بند پڑے ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ 10ویں اور 12ویں جماعت کے نصاب سے ہی پیشہ وارانہ امتحانات کا انعقاد ہوتا ہے ایسے میں حکومت کی طرف سے 10ویں اور 12ویں جماعت کے امتحانات کیلئے نصاب میں کمی کرنے کی باتیں بے وزن ہیں کیونکہ اس سے مستقبل میں ہونے والے انٹرنس امتحانات میں طلباو طالبات کی کارکردگی بڑے پیمانے پر متاثر ہوگی۔ انہوں نے کہا’’ حکومت ایک طرف دانش گاہوں کو نذر آتش کرنے کے معاملے میں تماشائی کا رول نبھا رہی ہے اور دوسری جانب امتحانات کے انعقاد کو لیکر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے، حکومت کا یہ رویہ اگرچہ حیران کن نہیں بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ اگر آپ ریاست میں دانش گاہوں کی حفاظت نہیں کرپارہے ہیں تو آپ کو امتحانات کے انعقاد کیلئے زبردستی کرنا زیب نہیں دیتا‘‘۔عمر عبداللہ نے کہا کہ ریاستی حکومت دانشگاہوں کی حفاظت کے تئیں خود کو لاتعلق نہیں کرسکتی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے سکولوں، ہمارے اساتذہ اور ہمارے طلبا و طالبات کی حفاظت کسی بھی قیمت پر یقینی بنائے۔