شوکت الحق
آخر ایسا کون سا طوفان آیا کشمیر میں کہ تعلیمی محکمہ نے امتحانات میں پندرہ فیصد رعایت دینے کا اعلان کیا؟ پچھلے برسوں میں جب حالات واقعی خراب تھے، اس وقت رعایت دینا کسی حد تک سمجھ میں آتا تھا، لیکن اس سال نہ کوئی بڑا مسئلہ ہوا، نہ حالات اتنے خراب رہے۔ پھر بھی اتنا بڑا فیصلہ لینا تعجب کی بات ہے۔کیا یہ رعایت بچوں کے لیے سہولت ہے یا تباہی کی طرف ایک قدم؟ اگر یہ رعایت کمزور طلبہ کو آگے بڑھانے کے لیے دی گئی ہے تو پھر امتحان لینے کا مقصد ہی کیا رہ جاتا ہے؟ بہتر ہوتا کہ ان کو بغیر امتحان کے ہی سرٹیفکیٹ دے دئیے جاتے۔ کیونکہ جب معیار کو کم کر دیا جائے، تو تعلیمی نظام اپنی بنیاد کھو دیتا ہے۔
ہمیں ماننا ہوگا کہ کشمیر کے بچے ہمیشہ محنتی رہے ہیں، مگر نظام نے انہیں پیچھے رکھا ہے۔ باقی ریاستوں کے طلبہ آگے بڑھ رہے ہیں، ترقی کر رہے ہیں، مگر ہمارے طلبہ ڈگریاں بنا بنا کر بیٹھے ہیں۔ اس رعایت سے ان کے لیے کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ یہ ان کے حوصلے اور معیارِ تعلیم دونوں کو کمزور کرے گا۔
نصاب میں کمی یا مستقبل میں کمی؟اگر حکومت کا مقصد واقعی کمزور طلبہ کو سہولت دینا تھا تو بہتر ہوتا کہ انہیں مزید وقت دیا جاتا تاکہ وہ اپنا مکمل نصاب تیار کر سکیں۔ لیکن جب بغیر تیاری کے رعایت دے دی جاتی ہے، تو یہ سہولت نہیں بلکہ معیارِ تعلیم کا مذاق بن جاتا ہے ۔ کیا سرٹیفکیٹ ہی سب کچھ ہے؟ روزگار کا وعدہ کہاں ہے؟
آخر ایسا کون سا مسئلہ تھا کہ حکومت نے پندرہ فیصد نصاب کم کر دیا؟ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ طلبہ کو ایک مہینہ مزید وقت دیا جاتا تاکہ وہ اپنا پورا نصاب مکمل کر سکیں؟ اگر حکومت کے پاس کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے، نہ روزگار فراہم کرنے کی کوئی پالیسی، تو اتنی جلدی امتحانات کرانے سے فائدہ کیا ہوگا؟ کیا حکومت کے پاس ایسا کوئی منصوبہ ہے کہ بس سرٹیفکیٹ تھما کر طلبہ کو نوکریاں دے دی جائیں گی؟ اگر نہیں، تو یہ فیصلہ صرف ایک دکھاوا ہے جس میں نہ معیار ہے، نہ مستقبل کی ضمانت۔اگر حالات صرف پندرہ یا بیس دن خراب رہے، تو کیا اس بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ لینا درست تھا؟ کیا بہتر نہیں ہوتا کہ ایک مہینہ مزید بچوں کو پڑھنے دیا جاتا تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو آزما سکیں؟ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ وقتی رعایتیں وقتی سکون دیتی ہیں، لیکن ان کے اثرات نسلوں تک رہتے ہیں۔
آج کشمیر میں ہزاروں نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار بیٹھے ہیں۔ کوئی پی ایچ ڈی ہولڈر ہے، کوئی ایم ٹیک یا ایم اے کا طالب علم، مگر ان کے پاس روزگار نہیں۔ جب پہلے سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو موقع نہیں مل رہا، تو پھر حکومت کو اتنی جلدی امتحانات مکمل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس رعایت سے کوئی نئی راہ کھلے گی؟ یا پھر ایک اور نسل انہی وعدوں اور نعروں کے سائے میں بے روزگاری کے اندھیروں میں گم ہو جائے گی؟
اختتامی کلمات : وقت آ گیا ہے کہ ہم تعلیم کو تجارت اور نمبروں کی دوڑ سے نکال کر شعور، کردار اور ذمہ داری کا ذریعہ بنائیں۔ رعایتوں سے نسلیں آگے نہیں بڑھتیں، محنت اور اخلاص سے بڑھتی ہیں۔ اگر آج ہم نے اپنے تعلیمی نظام کو درست نہ کیا تو آنے والی نسلیں صرف ڈگریوں کی مالا لیے پھر رہی ہوں گی، مگر ان کے ہاتھ خالی ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں وہ بصیرت عطا فرمائے کہ ہم سچ کو پہچانیں، اپنے بچوں کا مستقبل بچائیںاور ایک ایسا نظام تعلیم قائم کریں جو علم کے ساتھ شعور بھی دے، ڈگری کے ساتھ سمت بھی دے۔
رابطہ۔7006528042
[email protected]