تحریک آزادیٔ کشمیر کے عظیم رہنما اور مقبول بٹ مرحوم کے دست راست امان اللہ خان٢٦؍اپریل ٢٠١٦ء کو ہم سے جدا ہوئے ۔یہ جدائی اگرچہ خلاف فطرت نہیں،لیکن میرے لئے اس حد تک تکلیف دہ تھی کہ دل نا تواںپر قابو پانا انتہائی مشکل ہوگیا۔آنکھوں سے خود بخود عقیدت و محبت کے آنسو ٹپکنے لگے۔یوں لگا جیسے میں ماں کی ما متا اور والد صاحب کی شفقت سے ،مہاجرت کے اس صبر آزما دور میں پھر ایک بار محروم ہوگیا۔ اللہ گواہ ایک سال گذرنے کے باوجود یہی کیفیت آج بھی مجھ پر طاری ہے ۔جب بھی یاد آتے ہیں تو بہت یاد آتے ہیں۔ مجھے یا د آرہا ہے کہ١٩٩٩ء میں اپنے ایک دوست،بھائی اور مربی ایس ایم افضل کی وساطت سے قبلہ امان صاحب سے ملاقات ہوئی اور پھر ان ملا قاتوںکا سلسلہ ان کی آخری سانسوں تک جاری رہا۔پہلی ہی ملا قات میں مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ یہ کو ئی عام انسان نہیں،اسے اللہ نے نہ صرف حکمت و دانائی سے نوازا ہے بلکہ یہ عزم و ہمت کی ایک علا مت بھی ہیں ۔اگر چہ وہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ تھے ،لیکن میں نے انہیں اسی دائرے میں مقید نہ پایا۔میرے نزدیک وہ تحریک آزادی کے سچے اور کھرے رہنما تھے اور اللہ کا احسان یہ ہے کہ میں خود اسی تحریک کے ساتھ ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے وابستہ ہوں۔میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا،اور یہ کہنے میں مجھے قطعاََ کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ان کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔وہ ہر اس شخص کے ساتھ محبت رکھتے تھے،جسے تحریک آزادی سے وابستگی تھی ۔ہاں وہ زہر ہلاہل کو قند کہنے کا مشورہ دینے والوں کیلئے نا پسندیدہ شخصیت تھے۔جہاں وہ نام نہاد اندرونی خود مختاری کومذاق سے کم اہمیت نہیں دیتے تھے ،وہیںانہوں نے چا رنکا تی فارمولے کو بھی نہ صرف یکسر مسترد کردیا بلکہ اسے تحریک آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھو نپنے کے مترادف قرار دیا۔وہ پاکستان کے سچے بہی خواہ تھے،انہیں اگر اختلاف تھا تو پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ تھا۔وہ خود مختار کشمیر کے نہ صرف قائل بلکہ اس نظریہ کے پرجوش وکیل تھے لیکن یہاں بھی وہ اس حقیقت کو بیان کرنے سے چو کتے نہیں تھے کہ اصل فیصلہ کشمیری عوام کی رائے پر منحصر ہے ۔ان کی رائے اور نظرئیے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اختلاف کرنے کیلئے بھی کچھ پیمانے مقرر ہیں ۔میرے کشمیری یونیورسٹی کے دوستوں کو یاد ہوگا کہ ١٩٩٢ء میں ایک بار درگاہ حضرت بل کے ایک بڑے اجتماع میں کسی تنظیم سے وابستہ ایک نیم خواندہ مقررنے اپنے خطاب کے دوران اچانک موضوع کا رُخ تبدیل کیا اور انتہائی جذ بات میں کہا کہ انہیں علامہ اقبال کی فکر اور سوچ کے ساتھ کئی معاملات پر اختلاف ہے ۔ان الفاظ کی گونج کشمیر یو نیورسٹی کے اندر تک سنائی دی ۔مجھے یاد ہے کئی مہینوںتک یہ بات زبان زد عام رہی کہ (کریم دوکاندارس چھ علامہ اقبالس سأتی اختلاف)کریم دوکاندار کا علامہ اقبال کے ساتھ اختلاف ہے ۔ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے کہ اپنے آبائی علا قے ماگام ہندوارہ میں 1982ء میںپونچھ کے ایک مولوی صاحب تشریف لائے ۔ مساجد میں جاجاکرجماعت اسلامی اور سید مودودی ؒ کے خلاف ایک تقریری مہم شروع کی اورایک بار اس حد تک بھی پہنچے کہ اپنے خطاب کے دوران جماعت اسلامی کو مطعون کیا تومسجد میں موجود ہمدردان جماعت نے اعتراض کیا کہ معاملہ بگڑ گیا اورنوبت ہاتھا پائی تک پہنچی۔میرے بڑے بھائی عبد اللہ صاحب جو جماعت کے رہنما کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، نے ماگام ہندوراہ کی ایک بہت ہی بااثر شخصیت مرحوم محمد انور لون کی وساطت سے ڈسٹرکٹ کپواڑہ کے جید علماء کا ایک اجلاس بلایا۔اس اجلاس میں مولوی موصوف کے علاوہ علامہ مفتی جمال دین ؒ اور مفتی اعظم کپواڑہ مولانا محمد اکبر کرمانیؒ نے بھی شرکت کی ۔جماعت کی طرف سے میرے بردر اکبر اور ہندوارہ کے غلام رسول بانڈے شریک گفتگو رہے۔مفتی جمال الدین ؒ صاحب نے اجلاس کی صدارت کی ۔مولوی صاحب موصوف نے سید مودودی ؒ کی کئی کتابوں کے اقتباسات ،اپنے دفاع میں پیش کئے جن کا مدلل جواب مجلس میں بطریق احسن دیا گیا۔اجلاس کے اختتام پر مفتی جمال الدین نے مختصر بات کی اور میرا خیال ہے کہ تاریخی بات کی کہ ہم جیسے طالب علموں کو حضرت سید ابو الاعلیٰ مودودیـؒجیسے عظیم عالم دین کے ساتھ اختلاف رکھنا بھی جائز نہیں کجا کہ ہم فتویٰ بازی کریں ،،مفتی جمال الدین صاحبؒنے بالفاظ دیگر شرکا ئے مجلس کو یہ پیغام دیا کہ ہر کسی کو اختلاف کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔پہلے اپنا گریبان جھانکنا چاہئے ،پھر کسی شخصیت کے بارے میں بات کرنی چا ئیے ۔ اس کے بعد وہ مقرر صاحب کم سے کم وادی کشمیر میں کہیں نظر نہیں آئے ۔
بات کہاں سے کہاں پہنچی ۔مرحوم امان اللہ خان کے ذاتی کردار اور تحریک آزادی سے ان کے عشق کو اختلاف اختلاف کی بھینٹ چڑھانا،اپنی ہی حیثیت بگاڑنے کے مترادف ہے ۔وہ عاشق تھے ،مجنون تھے اور آزادیٔ کشمیر کے پروانے تھے ۔تاریخ گواہ ہے کہ وہ واقعی پروانہ بن کر شمع ِآزادی کے گرد محوپرواز رہ کر جل کر راکھ ہوگئے۔ان کے پاس کچھ نہ بچا ۔کوئی کوٹھی نہیں ،کوئی بنک بیلنس نہیں ،کوئی جائیداد نہیں۔۔۔چاہتے تو بہت کچھ حاصل کرلیتے ،لیکن انہیں صرف کشمیر کی آزادی چا ئیے تھی ۔ میں اس سوچ کا قائل ہوں کہ ایسے عاشقوں کو کسی تنظیم کے ساتھ یا کسی رشتے سے نتھی کرنا زیادتی ہے ۔چاہے یہ لوگ مقبول بٹ،امان اللہ خان کی شکل میں ہوںیا برہان مظفر وانی اور دیگر شہداء کی شکل میں،یہ لوگ ذات ،برادری ،تنظیم یا رشتے کے نام سے پہچانے نہیں جاتے،ان کا کردار ان کے عشق و جنوں کی کہانی بیان کرتا ہے ۔تاریخ انہیں سنہری حروف سے یاد کرتی ہے ۔ ان کے عملی کردار کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے ۔
قبلہ امان صاحب آج پھر بہت یاد آئے۔ایک دور یاد آیا۔یوں لگ رہا ہے جیسے میں ماں کی ما متا اور والد صاحب کی شفقت اور محبت سے ،مہاجرت کے اس صبر آزما دور میں پچھلے ایک سال سے محروم ہوں۔اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور کشمیری قوم کو منزل مقصوداور ساحل مراد سے ہمکنار کردے۔