طارق حمید شاہ ندوی
جب ہم ’’امام‘‘ کا لفظ سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ایک روحانی، باوقار اور مثالی شخصیت کا تصور اُبھر آتا ہے،جو صفِ اوّل میں کھڑا ہو، پاکیزہ ہو، ہر وقت عبادت میں مصروف ہو، ہر لمحہ اللہ کے ذکر میں محو ہو۔ مگر اس تصور کے پیچھے جو حقیقت ہے، وہ اکثر ہمارے شعور سے اوجھل رہتی ہے۔ امام بھی ہماری طرح ایک انسان ہوتا ہے،احساسات، ضروریات، تھکن، مجبوریوں، خوابوں اور آزمائشوں کے ساتھ۔
امام محض پیش نماز نہیں، ایک ہمہ وقت خادم :
امام مسجد صرف پانچ وقت کی نماز کا قائد نہیں ہوتا۔ وہ بچوں کا معلم، جوانوں کا مشیر، بزرگوں کا ساتھی، بیماروں کا دُعا گو، مردوں کا غُسل دینے والا، جنازوں کا پڑھنے والا، نکاحوں کا عاقد اور جھگڑوں کا ثالث بھی ہوتا ہے۔ ہر وقت لوگوں کی نگاہیں اس پر مرکوز رہتی ہیں۔ وہ ایک ایسا شخص ہے جو اپنی ذات کو پسِ پشت ڈال کر دوسروں کی خدمت کرتا ہے۔ مگر کیا ہم نے کبھی امام کے دل میں جھانکنے کی کوشش کی؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ وہ بھی تھک سکتا ہے؟ وہ بھی بیمار پڑ سکتا ہے؟ وہ بھی کسی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے؟
امام کے مسائل:وہ درد جو اکثر چھپ جاتے ہیں
۱۔ معاشی مشکلات:بیشتر امام حضرات معمولی تنخواہوں پر گزارہ کرتے ہیں، جن سے نہ بچوں کی تعلیم چلتی ہے، نہ صحت کی دیکھ بھال، نہ گھر کا کرایہ ادا ہوتا ہے۔ کئی اماموں کو جز وقتی اسکولوں یا مدرسوں میں پڑھا کر اپنی روزی بڑھانی پڑتی ہے، جو ان کی جسمانی اور ذہنی توانائی پر مزید بوجھ ڈالتی ہے۔
۲۔ نفسیاتی دباؤ اور سماجی تنقید:امام ہمیشہ ’’مثالی‘‘ بننے کے دائرے میں قید رہتا ہے۔ اگر وہ بیمار ہو، کسی دن تھک جائے، کسی نماز میں دیر ہو جائے یا کسی عبادت میں وقتی کمی آ جائے،فوراً مقتدیوں کی زبانیں طنز و تنقید سے تر ہو جاتی ہیں۔ امام کی اصلاح کو اخلاص سے زیادہ احتساب سمجھا جاتا ہے۔
۳۔ ذاتی زندگی کی قربانیاں:امام اکثر مسجد کے ایک محدود سے کمرے یا کوارٹر میں اپنی فیملی سمیت رہتا ہے، جہاں نہ مکمل آرام ہوتا ہے، نہ ذاتی سکون۔ اس کے بچے اکثر وہ سہولیات نہیں پا پاتے جو دوسرے بچوں کو میسر ہوتی ہیں اور امام خود اپنی بیوی اور والدین کو بھی وہ وقت نہیں دے پاتا جو ایک شوہر یا بیٹے کو دینا چاہیے۔
۴۔ سماجی تنہائی:امام کی مجلس محدود، دوست کم اور دل کی بات سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ دل میں سمیٹے دکھوں کے ساتھ چہرے پر تبسم رکھتا ہے کیونکہ ’’لوگوں کا امام‘‘ ہر حال میں مضبوط نظر آنا چاہیے!
مقتدیوں کی غلط فہمیاں اور رویے :
بعض اوقات امام کی غیر حاضری، کسی عبادت میں کمی یا کسی ذاتی مسئلے کو لے کر مقتدیوں کے دل میں شکوک پیدا ہو جاتے ہیں۔ سوالات اٹھائے جاتے ہیں: ’’کیا امام صاحب میں سستی آ گئی ہے؟ کیا وہ بے توجہی برت رہے ہیں؟‘‘ ان سوالات سے پہلے ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ شاید وہ بیمار ہوں، ذہنی تھکن سے گزر رہے ہوں یا کسی گھریلو آزمائش کا سامنا کر رہے ہوں؟یہ رویہ انتہائی غیر منصفانہ ہے کہ ایک شخص جو برسوں فجر میں سب سے پہلے مسجد پہنچتا رہا، اگر چند دن تاخیر کا شکار ہو جائے تو ہم اُس کے مقام کو ہی مشکوک سمجھنے لگیں۔اسلام ہمیں معصوم سمجھ کر نہیں، توبہ گزار سمجھ کر قبول کرتا ہے۔ امام اگر کبھی کمزوری کا شکار ہو جائے، لیکن نادم ہو، اللہ سے رجوع کرے، اپنی اصلاح چاہے،تو یہ اس کی عظمت کی دلیل ہے۔ سچی توبہ کا دروازہ ہر انسان پرہر وقت کھلا ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن میں ستر مرتبہ توبہ فرمایا کرتے تھے، تو ہم کس بنیاد پر امام سے کامل فرشتہ بننے کی توقع کریں؟
امام کی غیر حاضری یا کمزوری ،عبرت یا الزام؟
کیا بہتر نہیں کہ جب ہمارا امام نماز میں تاخیر کرے، یا کسی دن نہ آ سکے، تو ہم اس کے لیے دعا کریں، اس کی خیریت دریافت کریں اور اس کی مدد کا سوچیں؟ کیا امام صرف تب تک محترم ہے جب تک وہ وقت پر آتا ہے؟ اور اگر وہ کسی آزمائش میں ہو تو ہم اسے بھلا دیں، نیچا دکھائیں یا اس پر بدگمانی کریں؟یہ طرزِ فکر ہماری روحانی کمزوری کی علامت ہے، نہ کہ امام کی۔
ہماری ذمہ داری:مسجد کے امام کو نہ صرف روحانی بلکہ معاشی، نفسیاتی اور سماجی طور پر سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر وہ بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کریں،اگر وہ تھکا ہوا ہو تو اس کا بوجھ بانٹیں،اگر وہ پریشان ہو، تو اس کی دلجوئی کریںاور اگر وہ خطا کرے تو اس کی اصلاح عزت سے، محبت سے اور اخلاص سے کریں۔
امام ہمارے معاشرے کی بنیاد ہے۔ وہ اگر کبھی کمزور پڑے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ گر گیا، بلکہ وہ اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑے ہونے کے لیے وقفہ لے رہا ہے۔ امام اگر روتا ہے تو یہ کمزوری نہیں، اس کا جذبہ ہے۔ امام اگر تھکتا ہے تو یہ اس کی قربانی ہے۔ امام اگر خاموش ہے تو یہ اس کی حکمت ہے۔
آئیے ہم سب اپنے اماموں کی عزت کریں، ان کے مسائل کو سمجھیں، ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ کیونکہ اگر امام سلامت رہے گا تو اُمت کا ایمان بھی سلامت رہے گا۔
اللہ ہمیں ہمارے اماموں کی قدر دانی کی توفیق دے اور ہمیں بھی عبادات میں استقامت، نرمی، ہمدردی اور فہم عطا فرمائے۔ آمین