امام حسین ؑ دین اسلام جو بنو امیہ کے ہاتھوں میں پامال ہو رہا تھا ،کے دفاع وبقاء کے لئے یزیدیت سے نبرد آزما ہوئے۔ یزیدی ملوکیت نے خدا کے مال کواپنی بزرگی وبر تری کا ذریعہ بنایا ، صالح اور نیک لوگو ں کو روند ھ ڈالا ، عام لوگوں کے درمیان خوف و دہشت پھیلائی، جرائم،خرافات اور بدعات کو رواج دیا ۔امام حسین ؑنے یہ دھماچوکڑی دیکھی توایک محکم طریقے سے اس کا منہ توڑ جواب دیا۔آپؑ نے ایک ایسا دینی انقلاب برپا کیا جس کے ذریعے کتاب خدا کی صحیح تشریح و ترجمانی ہوئی ۔ غلط کار وگناہ کارملوکانہ حکام کو اپنی لامثال غیرت ایمانی سے للکار دیا، عام مسلمانوں کے درمیان دینی شعور اُجاگر کیا، اُن کو غلامی کی رنجیروں سے آزاد ہونے کا حوصلہ دیا ،اپنے ایثار وقربانی سے قیامت تک حق پسندلوگوں کو حق اور باطل میں تمیز کرنے کی ایمانی بصیرت وایقانی بصارت عطاکردی۔
قیام حسینی کے تین اسباب عام طور سے بیان کئے جاتے ہیں:(۱) یزید کی طرف سے مطالبہ بیعت: جب یزید نے امام حسین ؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا تو امام عالی مقام ؑنے صاف انکار کردیا۔امام عالی مقام ؑجانتے تھے کہ یزید میں مسلمانوں کا خلیفہ بننے کی ایک بھی صفت اور صلاحیت موجود نہیں تھی۔ یزید کی ذات میں یہ کمزوریوں مجتمع تھیں :ابلیس کا فرمابردار، خدا کی اطاعت نہ کرنے والا، لڑائی اور فساد برپا کرنے والا ، حدود الٰہی کو معطل کرنے والا، خدا کے مال کو ذاتی تصرف میں لانے والا ، حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرنے والا ۔امام عالی مقام ؑ نے اُمت مسلمہ کو اس بات کی طرف راغب کیا کی یزید کی بیعت سے انکار کرنا دنیا کے سب سے بڑے منکر وطاغوت کا انکار تھا اور یہ خدا کے دین کیلئے سب سے برا خطرہ تھا ۔ امام عالی مقامؑ نے صراحتاً فرمایا میں یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔اس طرح امام عالی مقام ؑ نے یزید کے خلاف اپنے قیام کا اعلان کیا ۔
(۲) کوفہ والوں کی دعوت: امام عالی مقام ؑ کو اہل کوفہ کی طرف سے بارہ ہزار خطوط ارسال ہوئے جن میں آپ کے دست ِ حق پرست پر بیعت کر نے کی استدعا کی گئی تھی۔ حالانکہ امام حسین ؑ بخوبی اس بات سے واقف تھے کہ کوفے والے دغا باز ،بزدلی اور سستی کے پتلے ہیں مگر بایں ہمہ اما م عالی مقام ؑ کو بیعت کا ٹھکرانا غیرتِ دینی وحمیت ِایمانی کوگوارا نہ ہوا ۔جب کوفیوں نے اما م حسین ؑ کو دعوت دی کہ کوفہ تشریف لائیں تو وہ یزید کی بیعت کوٹھکرا چکے تھے۔امام عالی مقامؑ نے حق وصداقت کی راہ میں سب کچھ نچھاور کر نے کا مصمم ارداہ فرمایا اور اعلان کیا کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔چشم فلک نے دیکھا کہ امام عالی مقام نے اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں اور اقبال ِ اسلام کے لئے خوشی خوشی قربان کیا۔
(۳) امربالمعروف و نہی عن المنکر : اُمت مسلمہ کا تاریخ کے اہم موڑ پرا یسے فساد قلب و مرضِ نگاہ کا شکار ہوجانا کہ وہ بزور بازو یزید کے پیچھے چلائی جائی، اس پر آپ ؑ کوبہت افسوس ہوا۔ اس فساد اور مرض کی اصلاح ترجیحاً اس قدر ضروری تھی کہ اس کے لئے اما م عالی مقام نے اپنا سب کچھ قربان کر دینا ایمان کا اولین تقاضا سمجھا۔ کوفہ روانہ ہوتے وقت جس دن امام عالی مقام ؑنے مدینہ چھوڑ دیا، اُسی دن اپنے ایک وصیت نامہ لکھ دیا جس میں تحریر فرمایا نہ میں نے ہوا و ہوس کی خاطر قیام کیا اور نہ ہی میرا مقصد فساد پھیلانا یا کسی پر ظلم کرنا ہے، میرے اس قیام کا مقصد اپنے پیارے نانا رسولؐ کی امت کی اصلاح ہے ، میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے جدامجد اور اپنے والد کی سیرت پاک پر چلنا چاہتا ہوں ۔امام عالی مقام ؑنے امت مسلمہ کو واضح پیغام دیا کہ خدا کی راہ میں جتنی قربانیاں دی جائیں اُتنا ہی کم ہے۔
اگر مسلمان واقعہ ٔ کرب وبلا سے دنیا صحیح سبق حاصل کریں اور امام حسین ؑ نے کربلا میں ایثار وقربانی کا جو بے نظیر نمونہ پیش کیا ہے، اس پر عمل پیرا ہونے کی سعی و کوشش کریں تو اُمت میں زندگی کے آثار نمایا ہو جائیں گے۔امام حسین ؑ نے یہ مثال پیش کی ہے کہ تم بلند مقاصد کیلئے ہر چیز کو قربان کرنے کیلئے بخوشی تیار رہو۔مبارک کے حقدار ہیںوہ اولوالعزم افراد جو شہادتِ حسینی ؑسے حقیقی سبق حاصل کرکے عملی حیثیت سے امام عالی مقام ؑ کی نقوش پا کی تقلید کرتے ہیں ،جو دنیاکو بگاڑنے کے بجائے اسے سنوارتے ہیںاور جو دین حق کے رول ماڈل حضرت امام حسینؑ کی پیروی کر کے حق وباطل کے معر کے اپنے آپ کو بغیر کسی پس و پیش کر تے ہیں ۔
رابطہ :گنڈ نوگام سمبل سوناواری
8803856812