چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے ملک میں پارلیمانی انتخابات کےلئے تاریخوں کا اعلان کرنے کی وجہ سے ملک کے طو ل وعرض میں سیاسی گہما گہمی میں زبردست اُبال پیدا ہوگیا ہے، لیکن جموںوکشمیر میں پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ساتھ اسمبلی کے انتخابات نہ کروانے کے فیصلے نے ریاست کے سیاسی حلقوں میں مایوسی اور خدشات کی لہر برپا کر دی ہے ۔ ریاست کی مین اسٹریم جماعتوں کی طرف سے کچھ عرصہ سے یہ خدشات ظاہر کئے جار ہے تھے کہ مرکز میں برسراقتدار کچھ حلقے ریاست میں فی الحال کسی منتخب حکومت کے قیام کے حق میں نہیں ہیں اور اب الیکشن کمیشن کی جانب سے اس اعلان کے ساتھ یہ خدشات درست ثابت ہوئے ہیں، حالانکہ کمیشن نے چار ریاستوں آندھرا پردیش، اُڑیسہ ، اُروناچل پردیش اور سکم میں پارلیمانی چنائو کے ساتھ ساتھ اسمبلی انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ کمیشن کے اس اعلان پر ریاست کی سبھی مین اسٹریم جماعتوں کی طرف سے زبردست برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کمیشن کی اس دلیل، کہ خراب سیکورٹی صورتحال اسمبلی انتخابات کروانے میں مانع ہے، پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کمیشن سے یہ سوال کیا گیا ہے، اگر ریاست میں سیکورٹی صورتحال اس قدر خراب ہے تو پھر پارلیمانی انتخابات کیسے ممکن ہوسکتے ہیں۔
سیاسی حلقوں کا یہ سوال تجزیاتی اعتبار سے غلط بھی نہیں کیونکہ پارلیمانی چنائو میں شرکت کےلئے ایک رائے دہندہ کو ایک ووٹ ڈالنے کی ضرورت ہے جبکہ ساتھ ساتھ دو انتخابات کےلئے دو ووٹ ڈالنے پڑتے۔ سیاسی جماعتوں کا یہ استفسار کہ اگر ایک ووٹ ڈالنے کے حالات موافق ہوسکتے ہیں تو دو ووٹ ڈالنے میں کیا مشکلات درپیش ہیں۔ لہٰذا اگر سیاسی جماعتیں اس سارے عمل پر شکوک و شبہات اور خدشات کا اظہار کریں تو شاید غلط بھی نہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ گزشتہ برس انتہائی خراب حالات کے باوجود پنچایتی اور بلدیاتی چنائو کروانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا اور مرکزی حکومت کی جانب سے اُسے کامیاب جمہوری عمل کی مثال کے طور پیش کرنے میں کوئی کسرنہیں اُٹھائے رکھی گئی۔ یہ ایک اعلان شدہ حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن کی ٹیم کے حالیہ دورہ ریاست کے دوران سرینگر اور جموں میں کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں نے ریاست میں دونوں انتخابات ساتھ ساتھ کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔ کشمیر اور جموں کے سبھی سیاسی حلقوں میں یہ اتفاق فکر و نظر کمیشن کی طرف سے فیصلہ لینے میں ایک رہنما اصول کے طور پر استعمال کیا جانا چاہئے تھا مگر کمیشن نے ان حلقوں کے نظریئے کو ایک طرف رکھ کر من مانے انداز میں فیصلہ صادر کرکے ایک ایسی صورتحال کو جنم دیا ہے، جس سے اس سارے عمل پر شکوک و شبہات کی پرت جم گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا یہ کہنا غلط بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کہ 1990کے بعد ریاست میں جس صورتحال کے چلتے کئی مرتبہ اسمبلی انتخابات کروائے گے ، وہ آج سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی، لہٰذا موجودہ سیکورٹی صورتحال، جس کے بارے میں مرکزی حکومت بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ وہ قابو میں ہے، کو بنیاد بنا کر اسمبلی انتخابات کو مؤخر کرنے کی دلیل میں کوئی وزن نظر نہیں آتا ۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
کیا اس کے پس پردہ کسی سیاسی جماعت کے عزائم ہیں یا پھر یہ سب کچھ ایسے گروپوں کی پذیرائیہے، جو مختلف وجوہات کی بنا پر ریاست میں صدارتی راج کو طول دینے کے خواہاں ہیں۔ حالیہ ایام میں مرکز کی جانب سے ریاست میں کچھ متنازعہ آئینی ترامیم کے نفاذ اور ریاستی انتظامیہ کی جانب سے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں ، جو مالی اعتبار سے کافی بڑے ہیں، کی منظوری پر بھی انگلیاں اُٹھائی جارہی ہیں۔ عوامی حلقے بھی کمیشن کے اس فیصلے پر نہ صر ف نالاں ہیں، بلکہ اسے جموںوکشمیر کے اندر جمہوری عمل کے فروغ میں دانستہ رخنہ اندازی سے تعبیر کر رہے ہیں، کیونکہ ایسی حکمت عملی موجودہ حالات میں فائدہ مند ہونے کے بجائے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک سادہ سا سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ اگر سارے ملک میں شہریوں کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرکے حکومت چُننے کی اجازت دی جارہی ہے ، جموںوکشمیر کے عوام کواس حق سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے، جبکہ موجودہ حالات میں معاملات کو سنبھالا دینے کےلئے ایک انتظامی نہیں عوامی حکومت کی ضرورت ہے۔