الیکشن کمیشن نے بالآخر اننت ناگ پارلیمانی حلقہ کے لئے ضمنی انتخاب ملتوی کر کے نئی تاریخ کااعلان کیا ، جو اپنے آپ میں اس بات کا اعتراف ہے کہ فی الوقت کشمیر میں انتخابی عمل کےلئے ماحول ساز گار نہیں ہے۔ بھلے ہی الیکشن کمیشن یہ بات تسلیم کرے یا نہیں مگر حقائق سے فرار کی زیادہ عمر نہیں ہوتی کیونکہ غیر جانبدار حلقے پہلے سے ہی اس بات کا رونا رو رہے تھے مگر کوئی سننے والا ہو توصحیح۔ اب میڈیا کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے کشمیر کی امن و قانون کی صورتحال کےحوالے سے کمیشن کو جو رپورٹ بھیج دی گئی تھی، اس میں برملا طور پر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انتخابی عمل کے لئے حالات کسی طور پر بھی موزون نہیں ہیں، مگر اس انتباہ کے باوجود الیکشن کمیشن نے ایک متنازعہ فیصلہ لے کر کیا کچھ بتانے کی کوشش کی ہے، اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق وزارت داخلہ کی رپورٹ کے جواب میں کمیشن نے مرکزی حکومت سے نیم فوجی دستوں کی 300کے قریب مزید کمپنیوں کی خدمات طلب کر لیں، جسکا نتیجہ آج دنیا کے سامنے ہے۔ عین ووٹنگ کے دن آٹھ نوجوانوں کی ہلاکت اور سو سے زائید لوگوں کے زخمی ہونے کے معاملے کو کمیشن کس طرح جواز بخشنے کی کوشش کرے گا ، یہ بھی دیکھنے کی بات ہوگی۔ لیکن جو خانوادے اس صورتحال میں تباہ ہوگے، اُن کی بھرپائی کی کوئی گنجائش باقی نہیںرہی۔فی الوقت جو صورتحال بنی ہوئی ہے، اُ س سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ کمیشن کے ارباب حل وعقد اپنی اہمیت کو بنائے رکھنے کی غرض سے زمینی حالات کو نظر انداز کرنے میں کوئی وقت محسوس نہیں کرتےکیونکہ سرینگر نشت پر ہوئی پولنگ کے دوران یہ بات صاف ہوگئ ہے کہ کمیشن نے اپنی جانب سے یہاں کے زمینی حالا ت کا جائزہ لیکر انہیں سمجھنے کی کوئی کوشش نہیںہے۔ کیا ایسا دانستہ ہوا ہے یا غیر دانستہ طور ؟ کیا ان حالات کے توسط سے کسی کی مدد کرنے کی کوشش کی جارہی تھی؟ مرکزی وزارت داخلہ کی منفی رپورٹ کے باوجود یہ عمل کیوں عمل میں لایا گیا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جنکا جواب کمیشن کے ارباب حل وعقد کو دینا ہوگا۔ اب جو تازہ فیصلہ سامنے آیا ہے، اس میں بھی تضاد موجود ہے۔ اگر 12اپریل کو اننت ناگ نشست پر انتخابات عمل میں لانے کےلئے امن وقانون کی صورتحال مانع ہے تو 13اپریل کو سرینگر نشست کے اُن38پولنگ بوتھوں پر ووٹنگ کےلئے حالات کیسے موزون ہوسکتے ہیں، جہاں9اپریل کو ووٹ اندازی ممکن نہ ہوپائی۔ عوامی حلقوں کی جانب سے کمیشن کے اس آدھاتیتر اور آدھا بٹیر والے فیصلے پر اگرشکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے تو شاید اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ نیم فوجی دستوں کے بل پر انتخابات عمل لانے کا فیصلہ کرتے وقت بھی اس امر کو نظر انداز کیا گیا کہ ہنگامی ڈیوٹی پر لائے جارہے فورسز اہلکار امن وقانون کی مقامی صورتحال اور یہاں کی نفسیات سے کلی طور پر نابلدتو نہیں اور انہیں کسی خاص قسم کی تربیت او رواقفیت بہم پہنچائے بغیر ہی لوگوں کے اندر جھونک دینا بذات خو د ایک خطرناک عمل تھا، مگر الیکن کمیشن نے ان معاملات پر باریک بینی سے غور و خوض کئے بغیر ہی جوفیصلہ لیا تھا، اُس کے عواقب اب ساری دنیا کے سامنے ہیں۔ فی الوقت کشمیر کا چپہ چپہ خاک و خون میں لتھڑ پڑا ہے اور ہر دل میں درد کی ٹیسیں اُٹھ رہی ہے،جسکا بدقسمتی سے کوئی پر سان حال بھی نہیں۔ان حالات نے جس تصویر کا خاکہ اُبھارا ہے مرکزی حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ اُس پر غور کرکے وقت گزاری کی روایتی پالیسی کو خیر باد کہنا چاہئے اور نئے انداز میں حالات کا تجزیہ کرکے اُن فریقین، جنکی مدد سے صورتحال میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے، سے راست روابط قائم کرنے چاہیں۔ یہ ایک خوش کن امر ہے کہ نیشنل کانفرنس اورمقامی کانگریس جیسی مین اسٹریم جماعتیں بھی اب کھلم کھلا یہ محسوس کر رہی ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کو ایڈرس کرنے کےلئے پاکستان اور مزاحمتی قیادت سمیت تمام فریقین سے رابطہ بنانے کی ضرورت ہے۔ حکمران پی ڈی پی ، بی جے پی اتحاد اقتدار کی کمزوریوں کی وجہ سے بھلے ہی حقائق سے آنکھیں چرانے کی کوشش کریں مگر انہیں عوام کی طرف سے تحریر کردہ نوشتہ دیوار پڑھنے سے آنکھ چرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔