الیکشن کمیشن کے جموںوکشمیر میں پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ساتھ ریاستی اسمبلی کے لئے انتخابات نہ کرانے کے فیصلے پر جہاں ریاست کے اندر مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہیں ملکی سطح پر بھی متعدد سیاسی حلقوںنے اس فیصلے کو غیر منصفانہ اور غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے اس پر نظر ثانی کرنے کےلئے کہا ہے۔ حالانکہ چھ ریاستوں کے اندر پارلیمانی انتخابات کے متصل اسمبلی چنائو کرانے کا باضابطہ اعلان کیا گیا ہے مگر جموںوکشمیر کے معاملے کو سیکورٹی و جوہات کو بنیادبنا کر لٹکائے رکھا گیا ہے۔ سیاسی حلقوں کی جانب سے اب یہ سوال کیا جا رہاہے کہ اگر مرکزی سرکار کا دعویٰ ہے کہ ریاست کے اندر صورتحال حکومت کے کنٹرول میں ہے تو پھر اسمبلی انتخابات کو لٹکائے رکھنے کے پس پردہ کیا عزائم کا ر فرماء ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمانی الیکشن کے حوالے سے عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ملک میں جمہوری عمل کے فروغ اور اسکی کامیابی کےلئے زیادہ سےز یادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے کےلئے نکلیں۔ سبھی حلقوں کی جانب سے وزیراعظم کے اس اظہار کو سراہا جار ہا ہے ، لیکن ساتھ ہی اُن سے ہی یہ پوچھا جا رہا ہے کہ اس اپیل میں جموںوکشمیر کہاں پر بیٹھتا ہے، جہاں انتخابات کے فیصلے کو لٹکائے رکھ کر سرکاری سطح پر اس کے برعکس پیغام دیا گیا ہے۔ ریاست کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے وزیراعظم کے پیغام پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ کے ذریعہ جموںوکشمیر کے عوام کو حق رائے دہی سے محروم کیا جار ہا ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ یہ سب کچھ دانستہ طور پر ہو رہا ہے۔ بہر حال عمر عبداللہ کے اس تبصرے کو یوں ہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ مرکز میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کےما سوا جموں اور کشمیر خطوںکی سبھی قومی اور علاقائی سطح کی سیاسی جماعتوں نے ریاست میں اسمبلی انتخابات نہ کرانے پر زبردست برہمی کا اظہار کیا ہے کیونکہ انہوں نے چیف الیکشن کمیشن کے ساتھ اپنی نشست میں کمیشن پر واضح طور پر باور کیا تھا کہ پارلیمانی چنائو کے ساتھ ہی اسمبلی کے لئے بھی انتخابات کرائے جائیں۔ لیکن کمیشن نے سیکورٹی وجوہات کو بنیاد بنا کر انکی اُمیدوں اور آرزئوں پر پانی پھیر دیا ۔ظاہر ہے کہ صرف بھاجپا کی طرف سے فیصلے کی حمایت سامنے آنے سے یہ اندازہ لگانے میں دِقّت نہیں ہونی چاہئے کہ یہ فیصلہ کہیں نہ کہیں اس جماعت کے مفادات اور مقاصد کو تقویت پہنچاتا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس پر کمیشن کو سنجیدگی اور غیر جانبداری سے غور کرکے یہ دیکھنا چاہئے کہ کہیں ایسی صورتحال اُس کی غیرجانبدارانہ حیثیت پر حرف آنے کے سبب کا ذریعہ تو نہیں بن سکتا ۔ فی الوقت کمیشن نےمقامی سیاسی جماعتوں سے دو بارہ صلاح مشورہ کرنے کا عمل شروع کیا ہے ،جس کا کلیدی سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا ہے تاہم اُمید کی جاسکتی ہے کہ جو دلائیل اُنکے سامنے پیش کئے جائینگے انکا مثبت انداز میں غیر جانبدارانہ طریقے پر تجزیہ کیا جائےگا۔ عام لوگوں کی جانب سے بھی یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جب ایک ووٹر ،حالات کی خرابی ،جیسا کہ اسمبلی انتخابات مؤخر کرنے کےلئے دلیل دی جارہی ہے،کے باوجود پارلیمانی نشست کی خاطر اپنے پسندیدہ اُمیدوار کے لئے ووٹ استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہے تو وہ اسمبلی امید وار کےلئے ووٹ کیوں نہیں ڈال سکتا ، جبکہ دونوں کا م موجودہ حالات میں ایک ہی مقام پر ایک ہی طریقے سے روبہ عمل آسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اپنے مشاورتی عمل کے دوران اس حقیقت پر دیانتداری کے ساتھ غور کرکے رائے دہندگان کو جواب دے کر مطمئن کرنا چاہئے۔ وگرنہ عدم اطمینان کی یہ صورتحال جمہوریت کے اس بنیادی ستون کو کمزور کرنے کا ایک اہم سبب بن سکتا ہے،جو کبھی بھی کسی کےلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے اُن عناصر کے حوصلے مزید بلند ہو جائینگے جو غیر منتخب سرکاری انتظام کے ساتھ اپنے مفادات وابستہ کرکے آسمانوںمیں پرواز کرنے لگتے ہیں۔