اتوار ریاست کی جمہوری و پارلیمانی تاریخ کا تاریک ترین دن تھا جب جمہوری عمل کی عمل آوری کے دوران وسطی کشمیرکے 2اضلا ع میں 8نہتے شہریوں کو ابدی نیند سلا دیاگیا ۔سرینگر بڈگام پارلیمانی نشست کیلئے ووٹنگ عمل کے دوران جس طرح سرکاری فورسز نے بڈگام میں7اور گاندربل میں1نوجوان کو جاں بحق کرکے خون کی ہولی کھیلی ،اس کی نظیر شاید ہی ریاست کی جمہوری تاریخ میں کہیں ملتی ہو۔خون آشام الیکشن عمل نے جہاں کئی تلخ زمینی حقائق سے پردہ سرکا دیاہے وہیں کچھ اہم سوالات بھی سامنے لائے ۔کچھ عرصہ قبل ہی ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ کشمیر میںصرف5فیصد ایسےلوگ ہیںجو مزاحمتی خیمے کے پروگراموں کے دوران پتھرائو اور تشدد کےمرتکب ہوتے ہیں جبکہ95فیصد لوگ امن اور جمہوریت کے حامی ہیں تاہم جس طرح گزشتہ روز کے الیکشن نے یہ بھرم توڑ دیا ہے،وہ ایک ہزیمت سے کم نہیں۔الیکشن عمل کے دوران نہ صرف سرینگر ضلع کے رائے دہندگان نے حسب روایت الیکشن عمل سے لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ توقع کے برعکس بڈگام اورگاندربل اضلاع ، جہاں ماضی میں بائیکاٹ کا کوئی اثر دیکھنےمیں نہیں آتا تھا،میں بھی بحیثیت مجموعی عوام نے چنائو عمل سے دوری بنائے رکھی ۔اتنا ہی نہیں ،الیکشن عمل کے دوان جس طرح بڈگام اور گاندربل اضلا ع میں شدید عوامی مزاحمت کے بعد حکام کو بیسیوں پولنگ مراکز کو دوپہر ہونے سے قبل ہی لپیٹنا پڑا اور کئی مقامات پر ووٹنگ مشینوں کو نقصان پہنچایاگیا ،وہ وزیراعلیٰ کی دلیل کی نفی کرتا ہے۔7فیصد مجموعی رائے دہی ریاست کے پارلیمانی چنائو کی تاریخ میں سب سے کم ترین شرح رائے دہی ہے۔1999میں بھی ،جب یہاں ملی ٹینسی زوروں پر تھی، 11فیصدرائے دہی ہوئی تھی۔لیکن آج ملی ٹینسی بہت حد تک ختم ہونے کے باوجود عوام کی جانب سے الیکشن عمل سے اس قدر بیزاری وزیراعلیٰ کے دعوئوں کی اعلاناً نفی ہے اور یہ ایک نوشتہ دیوار ہے جو نہ صرف ریاستی حکومت بلکہ مرکز ی اکابرین کو بنا کسی تاخیر کے پڑھ لیناچاہئے ۔یہ رجحان ریاست کی مین سٹریم سیاست کیلئے ٹھیک نہیں ہے اور اس بات کا برملا اعلان ہے کہ کشمیری عوام مین اسٹریم سیاست سے اکتا چکے ہیں کیونکہ انہیں اس سیاست میں نجات کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی ہے ۔الیکشن عمل کا دوسرا اور خوفناک پہلو یہ تھا کہ بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں ہوئیں جو حکومتی مشینری کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔جس پیمانے پر فورسز نے طاقت کا بے تحاشا استعمال کرکے بڈگام سے گاندربل اور سرینگر تک خون کی ہولی کھیلی ،وہ بدیہی طور اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ یہاں امن وقانون کی صورتحال سے نمٹنے کے نام پر فورسز کو کچھ بھی کر گزرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے اور وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں ۔اس سے بڑھ کر افسوسناک امر یہ ہے کہ ریاستی وزیراعلیٰ ،جو یونیفائیڈ کمانڈ کونسل کی سربراہ بھی ہیں ،ان بے گناہ ہلاکتوں پر نادم ہوتیں اورالیکشن کے دن فورسز کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر قوم سے معافی کی خواستگار ہوتیں،نے رسمی طور ان ہلاکتوں پر رنجیدگی ظاہر کی ،جو یا تو ان کی بے بسی کااظہار ہے یا پھر وزیراعلیٰ ان ہلاکتوں کی تہہ تک نہیں پہنچنا چاہتی ہیں۔ماضی میں حکومتیں ایسی ہلاکتوں پر کم ازکم تحقیقات کا اعلان کرتی تھیں لیکن پی ڈی پی اور بی جے پی کی موجودہ حکومت کے دوران ایسی انکوائریوں کا معاملہ ہی گول کیاگیا ہے اور اب محض دکھاوے کیلئے بھی انکوائریوں کے احکامات صادر نہیں کئے جاتے ہیں ،جس کا واضح ثبوت گزشتہ برس کی ایجی ٹیشن کے دوران ہوئی شہری ہلاکتیں اور اس کے بعد مسلح تصادم آرائیوں کے مقامات ہونے والی شہری ہلاکتیں ہیں ۔اتوار کی ہلاکتو ں کے حوالے سے بھی تحقیقات کا حکم تاحال صادر نہیں کیاجاچکا ہے، تو کیا لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیںہیں کہ حکومت کےلئے اب انسانی جانو ں کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں رہی ہے ۔90کی دہائی میں بھی الیکشن ہوئے اور انتہائی خراب حالات کے باوجود بھی شہر ی ہلاکتیں نہیں ہوئیں لیکن جس طرح اتوار کے الیکشن عمل کو خون میں غلطاں کیاگیا ،وہ ایک الارمنگ صورتحال ہے اور ایک نئے سیکورٹی بیانیہ کی راہ ہموار کررہا ہے جہاں الیکشن عمل کے نام پر خون بہانا جائز ٹھہرسکتا ہے ۔مانا کہ پتھرائو کے واقعات پیش آئے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیںکہ آپ پتھروں کا جواب گولی سے دیں۔ایسا کرکے پوری آبادی کو ہی پشت بہ دیوار کیا جا رہا ہے۔ اور اس کے تباہ کن نتائج برآمدہوسکتے ہیں۔فی الوقت جس پیمانے پرلوگ مین اسٹریم سیاست سے دوری اختیار کررہے ہیں ،یہ ایک بھیانک صورتحال ہے او ر اس کو سرسری طورلیکر الزام دائیں بائیں تھوپ کے اس کے بنیادی عوامل تک پہنچنے کی کوشش سے گریز کرنے کے عمل سے یہ صورتحال مزید ابتر ہونے کا اندیشہ ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ کیا یہاں مین اسٹریم سیاست کیلئے جگہ تنگ ہورہی ہے ؟۔کل تک جو لوگ قطار اندر قطار وو ڈالنے نکلتے تھے ،آج وہی لوگ کیوں الیکشن عمل سے بیزارہوچکے ہیں؟۔وجوہات عیاں ہیں اور امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت بے تکی بیان بازی کرنے کی بجائے ان وجوہات کو ایڈرس کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ مین اسٹریم اور کشمیری عوام کے درمیان وسیع ہورہی اس خلیج کو پاٹا جاسکے جو مستقبل میں کوئی تباہ کن کروٹ لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ۔