معصوم مظلومہ۔۔۔ کمسن مقتولہ۔۔۔۔ ننھی شہیدہ۔۔۔۔
ساری ریاست ہی نہیں بلکہ سارا ملک ہندوستان ہر جگہ، ہر ستھان پر ، قریہ قریہ، شہر شہر، ماتم کنان ہے۔ اتنے لوگ، اتنی جم غفیر، اتنے جلسے اور جلوس، اتنی ریلیاں اور اس طرح کا احتجاج تمہاری مظلومیت، وحشیانہ سلوک، بہیمانہ بے حرمتی اور سفاکانہ قتل کے خلاف کیا جائے گا، اتنے لوگ اُمڈ پڑیں گے اور اس انوکھے طرح کا احتجاج ہوگا۔ یہ سب کچھ اس بات کا گواہ ہے کہ ابھی ہندوستان کے بیشتر لوگ زندہ ہیں۔ اُن کی ضمیر زندہ ہے اور وہ انسانیت کے قیمتی جوہر دردِ دِل سے متصف ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ملک سے دور، اقوام متحدہ کے چیمبر سے باہر بلکہ یورپ میں گئی جگہ پر اس روح فرسا سانحہ پر آنسو بہائے گئے۔ دوڑتی پھرتی فاسٹ ٹریک زندگی ہونے کے باوجود بھی دیار مغرب کے باضمیر اور ذی حس باشندوں نے اس مقدس کاز اور احتجاج کا حصہ بننے کیلئے وقت نکالا۔ کئی لوگوں کی مالی نقصان اُٹھانا پڑا ہوگا مگر کسی نے پرواہ نہ کی اور بلا امتیاز مذہب وملت انہوں نے اس گھناؤنی حرکت کے لئے عزت دار اور سماج میں مقتدر لوگوں کو مندر کا تقدس پامال کرنے اور بھگوان کے چرنوں میں ہنسا کی ایک گھناونی اور بدترین مثال قائم کرنے والوں کی لعنت وملامت کی اور گھور ملامت و نفرت کے طعنے دئے اور بیک زبان ان کمینوں کو پھانسی چڑھانے کی مانگ کی۔
یہ سب تو ہوا میری بیٹی !مگر میں کیا کروں میں ایک باپ ہوں۔ میرے دل پر جو چرکہ لگاہے، زخم اُبھرا ہے اور گھائو آیا ہے، اُسے کوئی سہارا، کوئی تسلی اور کوئی مرہم بھر نہیں سکتا۔ کو ئی علاج و مداوا ٹھیک نہیں کرسکتا اور کوئی دوا مند مل نہیں کرسکتا۔ کیا رِستے ناسور کبھی ٹھیک ہو پاتے ہیں؟ میرے رب نے مجھے کسی امتحان میں ڈال دیا ہے۔
میری معصوم مظلومہ !گر چہ اس میں دو رائے نہیں کہ تم نے ایک بہت بڑی اذیت اور بے انتہا کرب ناک مراحل سے گذر کر شہادت پائی۔۔۔ بڑا رتبہ حاصل کیا۔
ایسا رتبہ جو روز قیامت میں تمہارے والدین کے نجات کابھی سبب بن سکتا ہے۔ تم نے دنیاوی زندگی میں انسانی جستجو کے مدعا و مقصد کو حاصل کر لیا۔ یہ گر چہ بڑی مسرت اور فخرو انبساط کی بات ہے مگر مجھے جب وحشی درندوں کے چنگل میں تڑپتی آہ وزاری کی تمہاری وہ کسمپرسی اور لاچارگی کی حالت یاد آتی ہے تو مجھے پہاڑ سے کود کر، ندی میں چھلانگ لگا کر یا اپے ہی ہاتھوں اپنے آپ کو ذبح کرنے کی تحریک ملتی ہے۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔ مگر پھر جب تمہاری والدہ کا ٹوٹا بکھراوجود اور باقی بچوں کے غم و اندوہ سے نڈھال جسم اور آنسوؤں کے بہاؤ سے متورم آنکھیں اور آنسوئوں سے تر چہرے نظروں کے سامنے آجاتے ہیں تو میں خود کشی کے اقدام سے باز آکر اپنے ادھڑے بدن کو سمیٹ کر فقط تڑپ کے رہ جاتا ہوں۔ دل میں ایک ہوک سی اُٹھتی ہے، ایک شدید ٹیس اُبھرتی ہے درد کی ایک کربناک لہر پیدا ہو جاتی ہے اور میرے اُدھڑے بے حال بدن کو۔ میرے وجود کو ریزہ ریزہ بکھیر دیتی ہے اور میں صبر کے بنا کچھ بھی کرنا نہیں پاتا۔ میر آئینہ ہی جب کر چی کرچی ہو کر نامعلوم اندھیروں کوگھورتا تاریک گھپائوں میں نابود ہوگیا تو میں اپنے آپ کو اپنے وجود کو کیسے سمیٹوں؟؟؟ میرا درد لا علاج ہے۔ اگر چہ اب بھی ایک باپ ہوں، ایک چلتا پھرتا وجود مگر میں فقط ایک زندہ لاش ہوں جسے وقت کی سیاہ آندھیوں نے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہوا میں اُچھال دیا ہے۔
میری بچی! میں بڑی مشکل سے تمہاری پڑھائی ٹیوشن فیس اور کپڑے لتے کا انتظام کرپاتا تھا۔ ہم دونوں میاں بیوی کے بڑے اَرمان تھے۔ میری یہ ہر گز خواہش نہیں تھی کہ تم پڑھ لکھ کر پیسہ کما کر میری گود میں ڈال دو گی اور میرے دن پھر جائیں گے اور میں ایک بڑا آدمی کہلائوں گا۔ نہیں ہم جیسے بڑی مشکل سے دو روٹی جٹا پانے والے خانہ بدوشوں کی ایسی اوقات کہاں؟ البتہ میں چاہتا تھا کہ تم پڑھ لکھ کر اتنی استعداد اور سوجھ بوجھ حاصل کر سکو کہ اپنے پچھڑے، ناخواندہ اور مفلس خانہ بدوش قوم کی کچھ خدمت کر سکو، کچھ مدد اور راحت کا سامان کر سکو۔ جنگلوں، بیابانوں اور پہاڑوں میں دوران سفر یادورانِ عارضی منتقلی جہاں دل لبھانے کے سامان اور قدرت کی نیر نگیاں تو ہوتی ہیں مگر جہاں ہوکا عالم ، ویران ویران ماحول اور فقط سنسناتی فضائیں اور چیختی ہوائوں کا راج ہوتا ہے۔ا ُس ماحول میں ہماری قوم ہر طرح کی مدد کی محتاج ہوتی ہے مگر افسوس یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔
میری نور نظر! تم دین ونیا،مذہب و ملت اور رنگ و نسل کی دنیا سے الگ باغ کائنات کی ایک معصوم کلی تھی مگر تُو کھل نہ سکی بلکہ وقت سے پہلے ہی مرجھا گئی۔ تنگ نظر متعصب درندوں نے مذہب و ملت اور نفرت کی سیاست کے نام پر ہی تمہارے ساتھ وحشیانہ اور غیر انسانی سلوک کرکے تم کو جام شہادت نوش کروایا۔ اُن وحشیوں نے نہ صرف اپنی مان مریادا، مقامی روایات، انسانی اقدار اور کھنڈ مٹھے ڈوگروں کے تقدس کو بھی پامال کر دیا۔ توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا ہے بھگوان کے چرنوں میں ہی بھگوان کے ساتھ ہی مذاق۔ کیا آرتی کاتھال لے کر وہ بھگوان کے سامنے کبھی جاسکیں گے۔ کیا منہ لے کر جائیں گے؟ بے غیرتی، بے شرمی اور سفاکی کی حد ہوگئی۔۔۔بہر حال بے حیا درندوں کی اس دل سوز حرکت پر گر چہ دنیا کے کونے کونے سے احتجاج وتاسف کی خبر یں آئیں۔ کوہ و دمن، بحر و بر اور ہر فرد بشر نے اس انسانیت سوز گھناؤنے کانڈ، بے حرمتی اور قتل ناحق کی پُر زور الفاظ میں نندا کی مگر مجھے معلوم ہے میری بچی کہ تمہیں انصاف نہیں ملے گا کیونکہ ہندو توا کے نظریہ کی روشنی میں ایک کثیر آبادی ملک میں’’دو قومی نظریئے‘‘ کے تحت ہم لوگوں کو نگاہِ نفرت ومغائرت سے دیکھتی ہے اور مظالم کی انتہا کر دیتی ہے؎
چار دن تک میرے تن کو روندا گیا
دیکھ بھگتوں کو بھگوان بھی رو پڑا
میں ہوں ننھی پری آصفہ ؔآصفہ ؔ
قتل کیوں کی گئی الوداع الوداع
رخسار بلراج پوری
(باقی اگلے ہفتے انشاء اللہ )
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995