ایس معشوق احمد
عنوان پڑھ کر بعض قارئین پریشان ہوسکتے ہیں اور کچھ حسد کی آگ میں جل سکتے ہیں کہ ہم گھڑی ، کتابیں اور چھوٹی چھوٹی چیزیں ہی تحفتاً پاتے ہیں اور اس بندےکو بڑی بڑی اشیاء یہاں تک کہ الماری بھی تحفے میں ملی ہے۔صاحبو! گھبرانے اور حسد کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔یہ الماری کا تحفہ کیا ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے اس راز سے ہم پردہ ایسے ہٹاتے ہیں جیسے نئی نویلی دلہن کا مکھڈا دیکھنے کے لئے گھونگھٹ اٹھایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے خدا کو حاضر ناظر جان کر ہم یہ اعتراف کرتے ہیں کہ کتاب کے سوا آج تک ہمیں کوئی اور تحفہ نہیں ملا۔ تحفے میں ضروریات زندگی سے جڑی اشیاء مل جاتی تو ہم سخت دھوپ میں تحفے کی چھاؤں میں مزے لیتے، کانٹوں بھرا بستر آرام دہ ثابت ہوتا، مشکلات آسانیوں کا لباس پہن لیتی ، خواہشات اور خواب پورے ہوتے اور حسرتیں مسرتوں میں بدل جاتی ۔ افسوس ابھی تک ہمیں کوئی ایسی شئے تحفتاً نہ ملی جو ہمارے لئے آسائش کا سبب بنتی۔ہم کتاب خواں ہیں، ہزار کوشش کے باوجود صاحب کتاب نہ بن سکے ۔کتاب تو حسن ہے جس کے دیدار ہم دوستوں کی عنایت اور مہربانیوں سے کبھی کبھار کرتے ہیں۔شاید ہمارے دوست ہماری حالت اور تحفتا کتابیں پانے کی ہماری عادت سے اکتا سے گئے ہیں۔جو کتابیں ہمیں موصول ہوتی ہیں انہیں ان کتابوں سے ہمدردی اور الفت ہوئی سو ان کو محفوظ رکھنے اور گرد و غبار سے بچانے کے لئے انہیں ایک ترکیب سوجھی کہ وہ ہمیں ایک عدد الماری تحفے میں دیں گے۔ ان کی نیت پر ہمیں شک نہیں کرنا چاہیے۔ مرزا کہتے ہیں کہ دوست کی نیت ، دشمن کے ارادے ، چور کی نظر ، چوہے کے حوصلے اور چیونٹی کی ہمت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کرنے پر آجائے تو کبھی بھی کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
صاحبو! کسی ادیب کی پذیرائی ایوارڈ کی صورت میں ہوجائے تو اس کے حوصلے بلند ہوتے ہیں ، ارادے مضبوط ہوتے ہیں ، اس کے جذبوں میں توانائی آتی ہے ، قلم میں جھرنے جیسا بہاؤ اور روانی آتی ہے ، خیالات میں سمندر جیسی گہرائی آتی ہے، اس کے لکھنے کے شوق میں اضافہ ہوتا ہے اور اس پر نیا کچھ تخلیق کرنے کی دھن سوار ہوتی ہے۔جب سے ہمارا شمار بھی قلمکاروں میں ہونے لگا۔ دن رات ایوارڈ پانے کے خواب دیکھتے ہیں۔قلم کو لگاتار حرکت میں رکھنے کے باوجود ہمیں ایسے نظر انداز کیا گیا جیسے سورج کی روشنی میں چراغ نظر انداز ہوتا ہے۔اس لائق افسوس صورت حال سے ہم بیزار ہوئے تو چند دوستوں نے دل مضبوط رکھنے کی تلقین کی اور کچھ نے صبر کرنے کا مشورہ دیا۔ایک دوست نے یہ تک پیشن گوئی کی کہ عنقریب آپ کی اتنی پذیرائی ہوگی کہ ایوارڈز رکھنے کے لئے گھر میں جگہ نہیں ملے گی سو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ایک عدد الماری خرید لو۔ہماری حالت سے واقف ایک خیر خواہ نے ان صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ الماری خرید کر انہیں تحفے میں دیجیے۔اس نیک مشورے نے ان کے جوش کو ابال دیا اور انہوں نے کھلے عام سوشل میڈیا پر ہمیں تحفتاً الماری دینے کا وعدہ ایسے کیا جیسے ہمارے حلقے کے نیتا جی نے ہمیں نوکری دینے کی سوگند کھائی تھی۔ الا اعلان نہ ہم نوکر ہوئے نہ ہمارے گھر الماری آئی ۔مرزا نے جب اس صورت حال کا جائزہ لیا تو فرمایا میاں محبوبہ کے قول و قرار، نیتا کے حلف اور دوست کے پیمان پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا کہ ان کے وعدے کبھی وفا نہیں ہوتے۔جس دن ان کی باتیں سچ ثابت ہونگی اس دن عاشقوں ، عوام اور مظلوم کے تمام مسائل حل ہوں گے۔مرزا کی آگم ودیا سن کر ہم نے ہمت نہ ہاری بلکہ اس آس اور امید پر جی رہے ہیں کہ دیر سویر الماری کا تحفہ گھر پہنچ ہی جائے گا۔مرزا کہتے ہیں کہ اس دوست کو الماری کا تحفہ دے دینا چاہیے تاکہ سند رہے اور لوگ اس کی سخاوت اور دریا دلی کو ایسے یاد رکھیں جیسے کووڈ وائرس کو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔
دوست جب وعدے وفا کرتے ہیں تو سکون اور اطمینان کے ہلکے ہلکے جھونکوں سے دل کو تراوٹ ملتی ہے،خوشیوں کی پھوار سے اجڑے دل کے باغ میں مسرت کے پھول کھلتے ہیں، اعتبار ، اعتماد، یقین اور بھروسے کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں۔مرزا نے جب یہ بیان سنا تو فرمانے لگے میاں سیاست کے میدان میں فوراً کود جاؤ تمہارا مستقبل روشن ہے ۔جو دوست کو تحفہ دینے پر آمادہ کرسکتا ہے وہ بڑی آسانی سے رائے دہندگان کی رائے کو اپنے حق میں بہتری کے لئے آسانی سے آمادہ کرسکتا ہے اور جیت کے رتھ پر سوار ہو کر فتح کا جشن مناسکتا ہے۔ صاحبو!مرزا کی باتوں پر ہم نے دھیان نہ دیا سو آپ بھی نہ دیجیے۔سیاست سے دور رہ کر ہم فقط اپنے منتشر خیالات کو حوالہ قرطاس کرنے کی سعی کریں گے اور آپ یوں ہی ان منتشر خیالات کو پڑھ کر خوش ہوجائیں۔ ہاں ہم وعدہ کرتے ہیں جس روز الماری کا تحفہ ہمارے گھر آئے گا سب سے پہلے ہم آپ کو مطلع کریں گے اور آپ کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کی پرانی عادت کو برقرار رکھیں گے۔
���
کولگام، کشمیر
موبائل نمبر؛ 8493981240