سہیل بشیر کار
ہمارے ہاں ایک تصور عام ہے کہ اگر ہم مذہب پر عمل کریں گے تو ہمیں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، ہماری زندگی پھولوں کی سیج پر بنے گی ۔ہماری سوسائٹی میں کچھ ایسے اشخاص بھی ہیں جن کی منفی سوچ ایسے پروان چڑھی ہے کہ اگر کسی کو بیمار ہوتا دیکھے یا کسی کو کسی تکلیف میں پاتے ہیں تو فوراً کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ گناہگار، بدکار انسان ہے، اسی وجہ سے اسے مشکلات کا سامنا ہے،زندگی بے سکونی میں گزر رہی ہے۔حالانکہ جب ہم دین کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس منفی سوچ کے برعکس وہاں اس میں بھی ایک مثبت پہلو کو اُجاگر کیا گیا ہے،جو جتنا اللہ کے قریب ہوگا اسے اتنا ہی زیادہ آزمائشوں میں گرفتار کیا جاتا ہے۔قرآن جن انبیاء کا تذکرہ کرتا ہے،ان کی زندگی میں ابتلاء و آزمائشیں کس نوعیت کی رہیں، اُس پر سیر حاصل کلام کرتا ہے۔رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب بھی اللہ کسی شخص کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے افتاد(آزمائش) میں مبتلا کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) اسی طرح دوسرے مقام پر حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’سب سے زیادہ مصائب وشدائد میں انبیاءؑ ہوتے ہیں، پھر اس کے بعد درجہ بہ درجہ دوسرے افضل لوگ، آدمی کی اس کی دین داری کے لحاظ سے آزمائش ہوتی ہے، اگر وہ دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ورنہ ہلکی، آدمی پر مصائب کا سلسلہ اس وقت تک رہتا ہے کہ وہ روئے زمین پر بغیر گناہ چلتا ہے (یعنی مصائب کی وجہ سے اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں)۔‘‘(مشکوٰۃ شریف ۱۳۶)
سیرت کے البم کا ورق پلٹیے اور مشاہدہ کیجئے کہ اللہ نے اپنے حبیبؐ کو کس قدر آزمائشوں میں مبتلا کیا۔رسول اللہؐ ابھی ماں کے پیٹ میں ہی تھے کہ والد کا انتقال ہوا۔چھ سال کے ہوئے تو دوران سفر مقام ابواء پر ان کی والدہ بی بی آمنہ کی روح پرواز کرگئی ۔ذرا غور فرمائیں، ایک ماں کی ضرورت بچے کو تاحیات رہتی ہے اور یہاں یہ شفیق سایہ بھی محسنِ انسانیت سے چھینا جاتا ہے۔امتحانات کا سلسلہ یہیں نہیں رُکا بلکہ والدہ کے انتقال کے دو سال بعد ہی حضورؐ کے کفیل دادا عبدالمطلب نے بھی دنیا کو خیرباد کہا۔
جن رشتوں کی ضرورت انسان کو سب سے زیادہ ہوتی ہے وہی رشتے ایک ایک کرکے یکے بعد دیگرے دادِ مفارقت دے کر انتقال کرتے گئے۔رسول اللہؐ کی جو اولاد نرینہ ہوئی، ان کا بھی بچپن میں ہی انتقال ہوا،یہ بہت بڑی آزمائش تھی، کڑا امتحان تھا خالق حقیقی کا اپنے حبیب کے لئے۔ جس پر انہوں نے صبر کا حق ادا کردیا۔لیکن اگر ہمارے ہاں موجودہ عہد میں کسی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، تو ہم سوچتے ہیں کہ اس شخص پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے،یہ رحمت سے محروم ہوچکا ہے۔حالانکہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ اللہ کی رحمت سایہ فگن رہی ہے۔اس کے باوجود اللہ نے انہیں ابتلاء و آزمائش میں ڈال دیا۔قرآن کریم میں پیغمبروں کے جو واقعات ملتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کو کس قدر آزمائش سے سابقہ پیش آیا۔
حضرت ایوبؑ کو بیماری کے ذریعہ سخت آزمائش کی گئی اور یہ آزمائش کم وقت کے لیے نہیں تھی بلکہ ایک لمبی مدت کے لئے ایسا رہا،اس پر ایوب علیہ السلام نے صبر کیا۔خود رسول رحمت ؐ کثرت سے بیمار رہتے تھے، آپؐ پر بھی ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، آپؐ کو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیا گیا،کفار مکہ نے آپؐ کے لئے مکہ کی سرزمین تنگ کی ،جس کے نتیجے میں آپ کو اپنے محبوب وطن کو خیرباد کہنا پڑا۔طائف کی وادی میں آپؐ کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا،اوباشوں نے پتھر مارے جس سے آپؐ کا جسم پاک لہولہان ہوگیا۔اس موقع پر جبرئیل امینؑ ملک الجبال (پہاڑوں کے فرشتے) کے ساتھ پیش خدمت ہوئے تاکہ اس بستی کی ہستی کو نیستی میں بدل دیا جائے لیکن نبی مہربانؐ نے فرمایا :’’’اے اللہ! انہیں ہدایت دے، بے شک یہ نہیں جانتے۔‘‘ نبی کریمؐ کے تلامذہ اور آپؐ کے قریبی رفقاء کو بھی دین سے تعلق کی پاداش میں مختلف طرح کی اذیتوں کا نشانہ بننا پڑا۔حضرت نوح علیہ السلام کو اتنی تکالیف پہنچائی گئیں کہ بالآخر انہوں نے اپنے رب سے دعا کی :’’میں بے بس ہوں، تو میری مدد کر‘‘ (سورہ القمر :10)
اللہ رب العزت نے یہ دنیا آزمائش کے اصول پر تخلیق کی ہے۔ یہاں انتخاب ہورہا ابدی راحت میں جانے والوں کا جو کہ اس دنیا کے اختتام پر جنت کی صورت میں خوش بختوں کو ملے گا۔اس سے قبل نیک و بد، ہر ایک کو اِس دنیا میں امتحانات و آزمائشوں کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔اللہ نے مختصر زندگی بندے کو دی ہے،اس میں طرح طرح کی آزمائشوں سے بندے کو آزمایا جاتا ہے تاکہ بندہ آخرت میں ابدی زندگی ابدی راحت کے لیے خود کو تیار کرے۔یہاں کی آزمائشیں عارضی ہیں، ان پر صبر کرنا حُسن انجام کا ضامن لیکن ہمارے عہد کا فہم ہی نرالا ہے،وہ یہ کہ نیکوکار کے پاؤں میں کانٹا بھی نہیں چُبنا چاہیے۔اگر ہم نے نماز، روزہ ادا کیے تو ہم پر مصائب نہیں آئیں گےیہ کج فہمی ہے، اس کا مزاجِ دین سے کوئی واسطہ نہیں۔ہم پر اسی لئےآزمائشیں آتی ہیں تاکہ ہماری تطہیر ہو۔رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب مسلمان پر کوئی مصیبت، بیماری، غم، پریشانی، تکلیف یا یاسیت نازل ہوتی ہے، خواہ ایک کانٹا ہی کیوں نہ چُبھے، اللہ اس کی وجہ سے اس کے گناہ معاف کردیتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
جس طرح فرد پر آزمائش آتی ہے ٹھیک اسی طرح قوموں پر بھی آزمائشیں آتی ہیں۔گزشتہ کئی عشروں سے امت مسلمہ بھی مصائب میں گرفتار ہے،گوناگوں مسائل میں گری ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کی ترقی کا انحصار اس قوم کے بنیادی اقدار پر ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ امت مسلمہ کے پاس پچاس سے زائد ممالک ہیں جہاں مسلمان حکمران ہی سریرِ سلطنت پر رونق افزوں ہیں، ہاں البتہ ہر جگہ بنیادی اقدار کا فقدان ہے۔اس کے برعکس جب ہم باقی اقوام کی طرف دیکھتے ہیں، وہاں خوشحالی، ترقی، علم کی فراوانی کا مشاہدہ کرکے ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ رب العزت ان سے ’’راضی‘‘ ہے، جو کہ صحیح تجزیہ نہیں ہے۔
قوموں کی ترقی وخوشحالی یا تنزل و بدحالی اللہ کے قانون ابتلاء کا حصہ ہے۔اللہ رب العزت قران کریم میں فرماتا ہے:’’اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بدحالیوں سے آزماتے رہے کہ شاید باز آجائیں۔‘‘ (سورہ الاعراف 168) سورہ العنکبوت میں فرماتے ہیں :’’کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں، ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟ ان سے اَگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا، یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں۔‘‘(آیت 2-3) سورہ البقرہ کی آیت نمبر 255، 256 اور 257 میں ارشاد فرماتے ہیں: ‘’’اور البتہ ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اورمالوں، جانوں اور پھلوں میں کمی کرکے اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو، وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں اور وہی لوگ ہیں (کہ) ان کے رب کی طرف سے ان پر عنایات ہیں اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں ‘‘۔
مصائب کیوں آتے ہیں؟ علت کیا ہے اس کی، یاسمین مجاہد اس حوالے سے رقمطراز ہے:’’یہ مفروضہ آفات درحقیقت ہمیں جگانے کا کام کرتی ہیں۔ یہ ہمارا غرور توڑتی ہیں، ہمیں ہلا کے رکھ دیتی ہیں، ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہم کتنے حقیر ہیں اور اللہ کتنا بڑا ہے اور اس طرح یہ ہمیں ہمارے مغالطوں ، ہماری بے خبریوں ، ہماری آوارہ گردیوں کی نیند سے بیدار کر دیتی ہیں اور ہمیں ہمارے خالق کی طرف واپس لے آتی ہیں۔ مصائب ہماری آنکھوں پر پڑا اطمینان کا پردہ نوچ پھینکتے ہیں اور ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم کیا ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔‘‘ (خدا تک کا سفر۔ صفحہ 109)
رابطہ ۔ 9906653927