یہ دنیا اور یہاں کی زندگی خوشی اور غم دونوں کا مجموعہ ہے۔اس دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے ہمیں بہت بار کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں اور ہم خوش ہوتے ہیں،جب کہ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم ناکام ہوجائیں اور اس وقت ہمیں ناخوشی اور غم سے دوچار ہونا پڑتاہے۔دنیا میں ایک بھی انسان ایسا نہیں پایا جاتا جس کی ساری کی ساری زندگی آرام و آسایش اور خوشی و حوش حالی میں بسرہورہی ہو،ہر کسی کے ساتھ کچھ اچھا بھی ہوتا ہے اور کچھ برابھی،کبھی اس کے ساتھ کوئی خوش گوار واقعہ رونما ہوتا ہے جبکہ کبھی برا اور تکلیف دہ واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔اسی طرح اس کی زندگی کی کشتی کنارے لگ جاتی ہے اور اس کی موت کا وقت آن پہنچتاہے۔اللہ کا یہی نظام ہے،وہ اس طرح سے اپنے بندوں کو اس کے صبر و ضبط کو اور اس کے ایمان کی مضبوطی و قوت کو آزماتاہے،چنانچہ دیکھنے میں آتاہے کہ بعض دفعہ مصائب سے گھبراکرانسان برے راستے پر چل پڑتا ہے اور صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے چھوڑدیتاہے،جبکہ کچھ ایسے بندے بھی ہوتے ہیں،جوزندگی میں پیش آنے والے تمام تر حادثات و واقعات کو من جانب اللہ سمجھتے ہوئے اسی کی قدرت پر بھروسہ کیے رکھتے اورکوشش میں مصروف رہتے ہیں،تاآںکہ اللہ تعالیٰ اسے صحیح اورجائز راستے سے عزت،دولت اور کامیابی عطافرمادیتاہے۔یہ ایک تکوینی نظام ہے،جو اسی وقت سے جاری و ساری ہے، جب سے اس روئے زمین پر انسانوں کا وجود ہے۔پھرجولوگ دنیا میں صبروہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مصیبت کے دن کاٹتے اور اللہ تعالیٰ پر اپنے ایمان و یقین میں تزلزل نہیں آنے دیتے،ان کے لیے دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی بہت اچھا بدلہ ہوگا،ارشادِباری تعالیٰ ہے:
’’یہ وہ دن ہے کہ جس میں سچے لوگوں کو ان کی سچائی کا فائدہ ملے گا،ان کے لیے ایسے باغات ہوںگے،جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوںگی،وہ ان باغات میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے،اللہ بھی ان سے راضی ہوگا اور وہ بھی اللہ سے راضی ہوںگے،(یقیناً)یہ بڑی کامیابی ہے‘‘۔(المائدہ:119)دوسری جگہ فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے ایمان والے مردوں اور عورتوں کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں،جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوںگی،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور عمدہ ٹھکانے ہوںگے باغِ عدن میںاوراللہ کی تھوڑی خوشنودی بھی بڑی چیز ہے،یہی ہے بڑی کامیابی‘‘۔(التوبہ:72)
حضرت عباس بن عبد المطلبؓ سے مروی ہے،انھوں نے اللہ کے رسولﷺکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:’’اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا،جس نے اللہ کو اپنا رب،اسلام کو اپنا مذہب اور محمدﷺکو اپنا نبی مان لیا‘‘۔(صحیح مسلم،ح:34)مطلب یہ ہے کہ ایسا بندہ ،جوزندگی کے ہر موڑ پر اپنے خدا اور رسول کی حقانیت و صداقت پرغیر متزلزل یقین رکھتاہے،اسے ایمان کی حلاوت اور شیرینی ضرور محسوس ہوگی۔حضرت ابو سعید خدریؓسے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:’’جس شخص نے یہ کہا کہ میں اللہ کے رب ہونے پر،اسلام کے اپنا مذہب ہونے پر اور محمدﷺکے اپنا نبی ہونے پر راضی ہوں،تو وہ یقیناً جنت میں جائے گا‘‘۔(سنن ابوداؤد،ح:1529)
بندے کا اپنے معبود سے راضی رہنااس کے اعمالِ صالحہ کی قبولیت کا عنوان اورساری خوش بختیوں کا دروازہ ہے۔یہ درحقیقت محبتِ الٰہی کا نتیجہ ہے اورایسا تبھی ہوتاہے،جب بندہ قضاوقدرپریقین رکھتاہواوراسے تسلیم بھی کرے،اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے کم یا زیادہ جوکچھ بھی(رزق وغیرہ) دیاہے،اس پر قناعت کرے،جوچیزفوت ہوجائے اس پر اظہارِ افسوس نہ کرے(کہ اس کا فوت ہونا مقدرتھا)اس کے ساتھ خیر و شراور خوشی و غمی کے جو معاملے رونما ہوں، ان کی وجہ سے باری تعالیٰ پراعتراض نہ کرے،اسے یہ بھی یقین ہوکہ کسی بھی معاملے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی تدبیر اس کی تدبیر سے بہتر ہے اور یہ کہ اللہ نے جس چیزکا اس کے لیے فیصلہ کیاہے،وہ اس کے اپنے پلان اور منصوبے سے بہتر ہے اوریہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کسی بھی مومن کے لیے خیر ہی کا فیصلہ کرتا ہے۔
البتہ اللہ سے خوش رہنے کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ آنے والی مصیبتوں اور پریشانیوں کا بندے کو احساس بھی نہ ہو؛بلکہ شرط صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر حرف زنی نہ کرے اوراس سے اپنی ناراضگی کا اظہار نہ کرے،ہمارے لیے نبی اکرمﷺکی شکل میںاس کی بہترین مثال ہے کہ جب آپؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات ہوگئی،تو بہت ہی غمزدہ تھے،آپؐ کی آنکھیں نم تھیں،مگراس کے باوجودآپؐکی زبان سے اللہ کی مرضی اور منشا کے خلاف ایک لفظ بھی نہ نکلا۔
اسی طرح انسان کاکامیابی و کامرانی کی نئی منزلوںتک رسائی کے تئیں پرجوش ہونااوراپنی معیشت و زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کرنابھی اللہ کی مرضی اور اس کے فیصلے سے خوش رہنے کے خلاف نہیں ہے، اپنی زندگی کوبہتر بنانے کے لیے تمام ترجائز اسباب اختیار کرنے کی اجازت ہے،وہ روے زمین میں گھومے پھرے،اس کے مختلف خطوں میں جاکر اپنی روزی حاصل کرنے کے لیے میں جدوجہدکرے؛یہ سب کرنے کے بعد اس کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ بھی اسے ملا ہے،اس کو خوش دلی سے قبول کرے اور اللہ کے فیصلے اور اس کی تقسیم پر راضی رہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ سے راضی ہونا یہ عملِ قلب ہے،جو شخص اس کا عادی ہوجاتا ہے،وہ زندگی میں پیش آنے والے تمام تر مصائب و مشکلات کو اطمینانِ قلب اور مضبوطیِ ایمان کے ساتھ جھیل جاتا ہے؛کیوںکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اچھاہی کریگااوراسے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جوکچھ اسے ملاہے،اس کا ملنا طے تھااورجوکچھ اسے نہیں مل پایاہے،اس کا نہ ملناطے تھا۔باقی دنیا میں رزق وغیرہ کے حصول کی جو راہیں ہیں،وہ بس ذرائع ہیں،دینے والی ذات تو صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے۔اللہ تعالیٰ اگر کسی بندے کو کامیاب کرنے پر آمدہ ہو،تودنیا بھر کی طاقت و قوت اسے ناکام نہیں کر سکتی،اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے کو ناکامی سے دوچار کرنا چاہے،تودنیابھر کے طاقت ور انسان مل کر بھی اسے کامیاب نہیں بنا سکتے۔اس لیے ہمیں ہر حال میں ،ہمہ وقت اور زندگی کے ہر موڑپر بھروسہ،توکل اور یقین و اعتماد صرف اور صرف اللہ کی ذات پر رکھنا چاہیے۔ہاں اسلام نے اس کی اجازت دی ہے کہ ہم کامیابی،رزق اورخوش بختی کے حصول کے لیے ظاہری اسباب و ذرائع اختیار کریں،مگران اسباب کو اصل مان کر اللہ تعالیٰ کی ذات سے بے نیاز ہوجانا یا ناکامی اور مصیبت کے مواقع پر گھبراکر اللہ کی ذات کو قصوروارٹھہرانا اوراس کے تئیں بے اطمینانی و بے یقینی کی کیفیت کا اظہار کرنا ہماری دنیا اور عاقبت دونوں کے لیے نہایت ہی براہے ،ہماری یہ ذہنی کیفیت ہمارے عقیدہ و ایمان پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ اوراس کے ہر فیصلے سے ہرحال میں راضی رہنا چاہیے،کیوںکہ اللہ کی مرضی اور اس کے فیصلے پر راضی رہناانسان کی دنیوی و اخروی سعادت کا منبع اور سرچشمہ ہے،راضی برضارہنے سے محبتِ الٰہی،اس کی رضامندی اوراس کی ناراضگی سے بچنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے،زندگی کو بہتر بنانے کے تئیں پرجوش ہونا اور اس راہ میںجائزجدوجہد کرنااللہ کی مرضی اور اس کے فیصلے کے خلاف نہیں ہے اورراضی برضاے الٰہی رہنے سے انسان کے دل میں اطمینان اور سکون پیدا ہوتا ہے۔
نوٹ: مولانا اسرار الحق قاسمی علیہ رحمہ( ممبر پارلیمنٹ کشن گنج ) گزشتہ دنوں اللہ کو پیارے ہوگئے