ابو نصر فاروق
’’یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور اُن لوگوں کے لئے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، اور اُن کے لئے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو،نیز یہ گردنوں کے چھڑانےاور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لئے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طر ف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔‘‘(توبہ:۶۰)
قرآن کی یہ وہ آیت ہے جس میں اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، اس صدقہ کو فرض بتایا گیا ہے ، اس کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ زکوٰۃ کے حقدار لوگ کون کون ہیں۔تمام عالم اسلام کا اس پراتفاق ہے کہ اس آیت میں زکوٰۃ کے حقدار جو لوگ بتائے گئے ہیں، اُن کو نظر انداز کر کے اگر کسی اور کو زکوٰۃ دی جائے گی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔لیکن جن لوگوں کا فرض تھا کہ وہ امت کو قرآن کا یہ حکم بتاتے اور سمجھاتے، اُن میں سے بیشتر اُمت کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ زکوٰۃ کے حقدار تو صرف وہ بچے ہیں جو مدرسوں اور درس گاہوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیںاور ایسا بتا کر ساری زکوٰۃ خود وصولنے لگے ہیں ،کئی مدرسوں اور درسگاہوں کی کروڑوں کی جائیداد ہے اور اُس کے مالک و مختار وہ صاحب یا اُن کے خاندان ہیں، جنہوں نے وہ مدرسےیا درسگاہ قائم کئے تھے۔اصل میں تو یہ ادارے اُمت کی امانت ہیں اور ان کا ذمہ دار اور انتظام کار اُمت کے افراد کو ہونا چاہئے تھا ، لیکن ایسا نہیں ہے،عام مسلمانوں کو نہ اس میں دخل دینے کا حق ہے اور نہ اس کا حساب و کتاب پوچھنے اور جاننے کا اختیار ہے۔جن لوگوں نے ایسا کیا ہے اُن کا کیا حشر ہوگا، اس آیت میں ملاحظہ کیجئے:
اے ایمان والو! اکثر علما اور عابد، لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں(یعنی حقداروں تک اُن کا حق پہنچنے نہیں دیتے ہیں)اور جو لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، اُنہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔ ایک دن آئے گا کہ اِسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے اُن لوگوں کی پیشانیوں اور پہلو ؤںاور پیٹھوں کو داغا جائے گا،(اُن سے کہا جائے گا)یہ ہے وہ خزانہ جسے تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا۔لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔(توبہ:۳۴/۳۵)
اس آیت میں اُن علما اور عبادت گزاروں کا بیان ہو رہا ہے جنہوں نے زکوٰۃ ناحق وصول کر لی اور اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکا، یعنی حقداروں تک نہیں پہنچنے دی ۔سونے اور چاندی (زمینی جائیداد )کی شکل میں جمع کر کے رکھ لیا، اُن کا قیامت میں کیا حشر ہوگا وہ اس آیت میں بتایا جارہا ہے۔
جو لوگ اتنے مالدار ہیں کہ ُان پر زکوٰۃ فرض ہو گئی پھر بھی وہ بخیل بنے ہوئے ہیں اور یا تو اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں نکالتے ہیں یا آدھی اُدھوری نکالتے ہیں اور کنجوسی سے اپنے مال مستقبل کے لئے بچت کے نام پرجمع کرتے چلے جارہے ہیں، اُن کے لئے اُن کا یہی مال گلے کا طوق بن جائے گا۔
اب غور کیجئے کہ ایک آدمی کو اللہ کا ڈر نہیں ہے،وہ اللہ پر مشکل کے حل اور اپنی روزی کے لئے بھروسہ نہیں کرتا ہے بلکہ سمجھتا ہے کہ اُس نے جو دولت جمع کر رکھی ہے وہی بُرے وقت میںاُس کی مددگار بنے گی۔ایک طر ف یہ آدمی ایمان کی نعمت سے محروم ہے اور دوسری طرف بدعقل ہے۔ مال پربھروسہ ہے اللہ پر نہیں۔آج کی دنیا میں ہر آدمی دیکھ رہا ہے کہ اَن گنت مالدار محتاجی اور مجبوری کی زندگی گزار رہے ہیںاور اللہ کے فضل سے نادار لوگ سکون اور اطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
جو لوگ اپنی زندگی میں شریعت کے احکام کی پابندی نہیں کرتے اور دنیا دار بن کر زندگی گزاررہے ہیں، اُن کو فاسق کہا جاتا ہے۔لیکن قرآن میں ایسے لوگوں کو فاسق یعنی کافر کا نام دیا گیا ہے۔ایسے لوگوں کے متعلق اللہ کا حکم ہے کہ یہ لوگ جبر اور کراہیت کے ساتھ یا دکھاوے کے لئے جو مال خرچ کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اُس کو قبول نہیں کرے گا۔یعنی آدھی اُدھوری زکوٰۃ نکلانے والے اس گمان میں نہ رہیں کہ وہ دنیا والوں کو دھوکہ دے کر جنت کے حقدار بن جائیں گے۔پوری خوش دلی اور دل کی رضامندی کے ساتھ جو لوگ اپنے مال کی پوری زکوٰۃ صحیح حقداروں تک پہنچانے کا اہتمام نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ اُن کو فاسق کہتا ہے اور اُن کی دکھاوے کی دی ہوئی زکوٰۃ کو قبول نہیں کرتا ہے۔تصور کیجئے کہ جو مالدار لوگ زکوٰۃ نہیں نکالتے ہیں ،اُن کا کیا حشر ہونے والا ہے۔کیا ایسے لوگوں کے روزے، نماز، عمرہ، حج اور عبادت کی دوسری نیکیاں قبول ہوں گی اور اس وقت جو اللہ کا عذاب آیا ہوا ہے اس سے وہ بچ پائیں گے ؟
دوسری بات یہ کہ موجودہ مسلمان اگر اللہ کا حکم مان کر اپنامال نادار لوگوں پر خرچ نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو زمین سے نیست و نابود کر دے گا۔اُن کا نام و نشان مٹ جائے گا۔جیسے زمیندار اور جاگیردار مسلمانوں کا نام و نشان مٹ گیا۔ پھر اُن کی جگہ غیر مسلموں کو ایمان لانے کی توفیق دے گا۔ وہ لوگ اسلام کو پڑھ کر اور سمجھ کر ایمان لائیں گے اور اصلی مسلمان ہونے کے سارے حقوق ادا کریں گے، جس میں سب سے اہم غریب اور نادار لوگوں کی اپنے مال سے مدد کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ اُن کو فروغ اور ترقی دے گا اور وہ دنیا میں عزت وآبرو کے ساتھ سراٹھا کرشان کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔ آ ج کے مسلمانوں کی طرح ذلیل و خوار ہو کر نہیںرہیں گے۔اللہ بڑی طاقت کا مالک اور قادر مطلق ہے۔ جو چاہے ، جیسا چاہے، جب چاہے کرسکتا ہے۔ اللہ کو اس کے ارادے سے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ؐنے فرمایا :بندہ کہتا ہے یہ مال میرا ہے، یہ مال میرا ہے حالانکہ اس کے لیے مال میں تین حصے ہیں۔(۱) جو کھالیا وہ ختم ہوا، جو پہن لیا وہ بوسیدہ ہوا۔(۲)اور جو کچھ خدا کی راہ میں خرچ کیا ،وہی اپنے لیے جمع کیا۔(۳)اس کے علاوہ جو مال ہے توآدمی قبر میں چلا جائے گا اور مال اپنے وارثوں کے لیے چھوڑ جائے گا۔ (مسلم)