فکرو فہم
ماجد مجید
کی محمد سے وفا تو نے،کے تناظر میں امت مسلمہ کو اللہ کا جواب۔(اے نبیؐ! کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی اور اطاعت کرو ،بدلے میں تمہارے گناہ بخشے جائیں گے) تو کیا تم صرف عید میلاد النبیؐ منا کرجلسے کرکے اور جلوس نکال کر یا ذوق و شوق کے ساتھ درود و سلام بھیج کر اپنے فرض منصبی سے عہدہ برا ہوجاؤ گے ۔ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے، جان لو کہ جو کام آنحضورؐ سے قبل انبیاء و رسل کرتے تھے، آپ ؐ کے بعد وہ سب کام تمہارے ذمے ہے، خواہ دعوت تبلیغ،انذار تبشیر تعلیم تربیت اصلاح تزکیہ پر مشتمل فریضہ، شہادت حق ہو یا اقامت دین اور اظہار ِدین حق علی الدین کلہہ پر مشتمل بعثت محمدی کا مقصد امتیازی اور منتہائے خصوصی ہو، اس اعتبار سے یہ سارے فرائض اب تم لوگوں پر عاید ہوتے ہیں ۔آنحضور ؐ کے نام لیوا اور آپؐ کے نام نامی سے منسوب ہونے پر فخر کرتے ہو ،اور آپؐ کی اُمت میں ہونے کو موجب سعادت جانتے ہو۔ تئیس(23) برس کی محنت شاقہ کے نتیجے میں حق کا بول واقعتاًبالا ہوگیااور سر زمین عرب پر دین کا پرچم فی الواقع لہرانے لگا تا آنکہ حج الوداع کے موقع پر سوا لاکھ افراد کے اجتماع سے الاھل بلغت کے جواب میں یہ گواہی لینے کے بعد کہا،’’ نشھد انک قد بلغت و ادیت و نصحت ‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند ہی ماہ کے اندر اندر رفیق اعلیٰ کی طرف رحلت فرما گئے اور آپؐ کی بعثت کی تمام ذمہ داریاں اُمت کے کاندھوں پر آئیں۔چنانچہ 23 برس کی قلیل سی مدت میں اللہ کے دین کا پرچم اُس وقت کی معلومِ دنیا کے ایک بڑے حصے پر لہرا دیا۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قران ہوکر
اس کے بعد شروع ہوا زوال کا وہ عمل جو تیرہ صدیوں تک جاری رہا۔ موجودہ صدی کے آغاز میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ دین حق غریب الغرباء بن کر رہ گیا، موجودہ دور میں تم سب دنگے فساد، لوٹ مار قتل وغارتگری، جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے ہو۔تمہاری تعداد سوا ارب سے زائد ہونے کے باوجود بین الاقوامی سطح پر تمہاری رائے کی کوئی حیثیت نہیں ۔جیسا کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا،’’ مجھے اندیشہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ نہایت کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود بھی تمہاری حیثیت سیلاب کے ریلے کے اوپر جھاگ سے زیادہ نہیں رہے گی کیونکہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہوجاؤ گے اور موت سے نفرت کروگے، اللہ تعالی تمہارے دلوں میں ’ وہہن‘ کی بیماری ڈال دے گا۔‘‘ابلیس کو خوش کرنے کے لئے اور کیا چاہئے۔موجودہ دور میں امت کی کثیر تعداد نے گمراہی مزاج اپنائے رکھا ہے اوراپنے دِلوں اور گھروں میں ابلیس کو بسا کے بے راہ روی، دنگا فساد، موسیقی رقص کے میدان کھلے چھوڑے ہیں اور خود قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےاحکاموں سے بھاگے جارہے ہیں۔
آج قرآن کے ساتھ تمہارا اس کے سوا کوئی سر و کار نہیں کہ تم کسی شخص کو عالم نزع میں اس کی سورہ یاسین سناتے ہو ،تاکہ اس کی جان آسانی سے نکل جائے۔ صوفی اور واعظ حضرات نے قرآن کو نچوڑ کر اپنی مجالس اور اپنے وعظ کے لئے کچھ اور چیزوں کو منتخب کرلیا ہے ۔واعظ کا یہ حال ہے کہ ہاتھ بھی خوب چلاتا ہے، سماں بھی خوب باندھ دیتا ہے۔ اس کے الفاظ پر شکوہ اور بلند بالا ہیں لیکن معنی کے اعتبار سےنہایت پست اور ہلکے ۔اس کی ساری گفتگو خطیب بغدادی سے ماخوذ یا امام ویلمی سے اور اس کا سارا سروکار بس ضعیف شاذ اور مرسل حدیثوں سے رہ گیا ہے ۔ اللہ کے بندے ! آج تیری ذلت اور رسوائی کا سبب یہ ہے کہ تو قرآن سے دور اور بے تعلق ہوگیا ہے ۔اپنے فرض منصبی کو بھول چکا ہے ۔ہوش میں آجائو اور یاد کرو اُس حدیث کو جس کے راوی حضرت علی ؓ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’میرے پاس جبرئیل آئے اور کہا ۔اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ کی اُمت آپؐ کے بعد اختلاف کا شکار ہو جائےگی ۔رسول اللہؐ نے فرمایا،’’اے جبرئیل! نکلنے کا راستہ کیا ہوگا۔جبرئیلؑ نے جواب دیا،’’اللہ کی کتاب اور اس کے مطابق فیصلے کرنا۔‘‘اللہ کا یہ بھی ارشاد ہے،’’ اے نبیؐ! کہہ دیجئے کہ تم وہ بہترین اُمت ہو، جو اعلیٰ منصب پر فائز ہوچکی ہے،اپنے عہد پر ڈٹے رہو ،اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی اور اطاعت کرو ،بدلے میں اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں