درخشندہ روایات کی حامل ملت اسلامیہ عصر حاضر میں جن گھمبیر حالات سے دوچار ہے پور ی تاریخ اسلامی میں ایسے حالات ملت اسلامیہ پر کبھی نہیں آئے ۔واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ستاون سے زائد مسلم ممالک کا وزن پوری دنیا کے پلڑے میں ایک تنکے سے بھی کم ہے جس کی بنیادی وجہ باہمی انتشار وافتراق ہے اس وقت عالم کفر کے ہاتھوں دنیائے اسلام کی جو درگت بن رہی ہے اس کا اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو یہ اسی باہمی افتراق وانتشار کی ملت اسلامیہ سزا بھگت رہی ہے جب کہ اس تحفظ کے لئے قرآن وسنت میں صاف صاف رہنمائی موجود ہے اور امت مسلمہ ہے کہ جس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی خدائے پاک پوری امت کے اس جرم عظیم کو معاف فرمائے مسجداقصی ملت اسلامیہ کا قبلہ اول خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے جو کہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیلی کا قبضہ ہے بیت المقدس( حرم ا لثالث ) یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں ۵ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جب کہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز اداکرسکتے ہیں۔۲۰۰۰ ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجداقصی میں تمام انبیاء کرام ؑ کی نماز کی امامت فرمانے کے بعد بذریعہ براق سات آسمانوں کے سفر پر یہیں سے روانہ ہوئے۔ قرآن مقدس کی سورہ الاسرار میں خدائے پاک نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے : پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقینا خدائے تعالی ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے، (سورہ الاسراء آیت نمبر۱) احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام مسجد اقصیٰ اور مسجد نبویؐ شامل ہیں۔ حضرت ابو ذر سے مروی ہے کہ میں نے پیغمبر اسلام سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تو پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا کہ مسجد حرام تو میں نے کہا کہ اس کے بعدکونسی ہے؟ تو آپ ؐفرمانے لگے مسجد اقصی میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ تو پیغمبر اسلام ؐنے فرمایا کہ چالیس سال پھر جہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے (صحیح بخاری حدیث نمبر:۳۳۶۶) مسجداقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت ۱۶ سے ۱۷ ماہ تک مسلمان مسجد اقصیٰ کی جانب رخ کر کے ہی نماز اداکرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا جب سیدنا عمر فاروق رضی اا للہ تعالیٰ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمرؓ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز اداکی تھی مسجد اقصیٰ سے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے یہی مسجد بعد میں مسجداقصیٰ کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصیٰ کہا گیا ہے ۔اس دور میں بہت سے صحابہ ؓنے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی مسجداقصیٰ کاموسس حضرت یعقوب علیہ السلام کو مانا جاتا ہے اور اس کی تجدید حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی بعد میں خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین وآرائش کی عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی ،پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوگیا تو انہوں نے مسجداقصیٰ میں بہت ردوبدل کیا ۔انہوں نے مسجد میں رہنے کے لئے کئی کمرے بنالیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطورجائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں ۔انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گر جابھی بنا لیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ رحمہ نے ۲اکتوبر ۱۱۸۷ء کو فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصیٰ کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ مسجد اقصیٰ کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبتہ الصخرۃ ہے جو اسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہے، تاہم آج کل یہ نا م حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد کے بارے میں کہاجاتا ہے وہ مسجد جو نماز کی جگہ ہے وہ قبۃ الصخرۃ نہیں لیکن آج کل قبہ کی تصاویر پھیلنے کی بنا پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجداقصیٰ خیال کرتے ہیں حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں ،مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر واقعہ ہے زمانہ قدیم میں مسجدکاا طلاق پورے صحن پر ہوتا تھا اور اس کی تائید امام ابن تیمیہؒ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ مسجد اقصیٰ اس ساری مسجد کانام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمربن خطاب ؓ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصیٰ کا نام دینے لگے ہیں اس جگہ میں جسے عمر بن خطاب ؓ نے تعمیر کیا تھا نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
بیت المقدس ۱/اگست ۱۹۶۷ء کو اسرائیلی قبضے میں چلا گیا جو آج تک جاری ہے۲۱/اگست ۱۹۶۹ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلہ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گرپڑا محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبیؒ نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا ۱۶جنگیں لڑیں ،اہم بات یہ کہ ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں ۔اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لئے بیدار ہوئی اورسانحے کے تقریبا ایک ہفتے بعد اسلامی ممالک نے موتمر عالم اسلام (اوآئی سی)قائم کردی ،یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکردو بارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا، مگر آہ!
آج وہ بدنصیب دن ہماری زندگی ہی میں آگیا کہ امریکہ کے فسادی اورعنادی ذہن رکھنے والے یہودی نواز صدر ڈونلڈٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا اور اس کا اعلان بھی کردیا گیا۔ یہ سن کر عالم اسلام کا کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ چونکہ یہ ایک صیہونی صلیبی مجرمانہ اور دشمنانہ فیصلہ ہے صاف بات یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں روئے زمین پر بالعموم اورامریکہ کی تاریخ میں بالخصوص سب سے زیادہ منحوس اور مبغوض صدر ڈونلڈٹرمپ ہے اس ظالم نے اپنے انتخابات کے دوران بھی کمزورناتواں بیکس اور بے بس کالے لوگوں اور مسلمانوں کے خلاف سخت قسم کے بیانات دئے تھے اور اسلام کے خلاف زہر اگلاتھا اور نتیجتا یہ ظالم اپنی ظالمانہ چالوں سے صدرات کی کرسی تک پہنچ گیا ۔ڈونلڈٹرمپ اور اس کے داماد اور اس کی لابی کے اہم ذمہ داروں پر آج کی تاریخ میں بھی امریکہ میں مقدمات چل رہے ہیں امریکہ خود اس صدر سے بہت زیادہ پریشان ہے ۔وجہ ظاہر ہے کہ یہ ایک صہیونی لابی کے ٹولے کے ذریعے حکومت کررہا ہے جسے خوش کرنے کے لئے اس نے یہ فیصلہ لیا ہے اور ڈونلڈٹرمپ کی اسلام دشمنی سے آج کون ناواقف ہے۔ بہر حال! فلسطین کے باغیور اہل ایمان آج تک اپنے خون پہ بیت المقدس کی نماز کو فوقیت دیتے رہے فلسطینی مائیں اپنے معصوم بچوں کو پیدا ہوتے ہی بیت المقدس کی حفاظت کے لئے وقف کردیتی رہیں چونکہ مکہ اور مدینہ منورہ کے بعد روئے زمین پہ سب سے مقدس ترین یروشلم ہی وہ جگہ ہے جو اسرائیل کا دارالحکومت ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں اسرائیلی جمہوریت ناچ کرے گی جہاں پرائم منسٹر ہاؤس ہوگا جہاں صدارتی محل ہوگا جہاں سپریم کوٹ ہوگا جہاں ایمبیسیاں ہوںگی اور اس اعلان کو عالمی امن کی طرف مضبوط قدم بھی کہا جارہا ہے جہاں ساٹھ پینسٹھ سالوں سے فلسطینی مسلمان ذبح کئے جاتے رہے کہیں عرب اسرائیل جنگ کے نام پر اور کبھی ہیکل سلیمانی کے نام پر اور کبھی یہودیوں کے پیدائشی حق کے نام پر اسی طرح ماضی قریب میں ماہ صیام میں اسرائیلی درندوں نے نہتے فلسطینی مسلمان مردوںعورتوں اور معصوم بچوں پر تشدد کے قیامت خیز مظالم بپاکئے اور درندگی کی کمان یہاں جاکر بھی نہ ٹوٹنے پائی کہ اسرائیلی فوج نے فلسطینی بچوں کو ان کے ماں باپ کے ہاتھوں میں تھما کر بندوق کی گولیوں سے ان کے جسموں کو چھلنی کردیا۔ درندگی کے اس ننگے ناچ پر آسمان بھی رویا، مگر آہ! فلسطینی مسلمانوں کی ان سب قربانیوں کے باوجود آج بیت المقدس کھلم کھلا اور ببانگ دہل اسرائیل کی جھولی میں ڈالاجارہاہے ، شاید کسی روشن ضمیر نے یہ ناصحانہ شعراسی موقعہ کے لئے کہا تھا ؎
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
کچھ کام نہیں آتی دلیل اور حجت
آج وقت کی پکار ہے کہ امت مسلمہ کے ستاون سے زائد ممالک وحدت اختیار کریں یو این او، اور سیکورٹی کونسل پر بالکل اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ ادارے اسلام دشمن طاقتور ممالک کے غلام ہیں ان اداروں نے مداخلت کا دروازہ از خود کھول کر تباہی کا دروازہ کھول رکھا ہے اور اب صرف شک کی بنیاد پر بھی پیشگی حملے کا اختیار دے دیا جاتا ہے گویا کہ ظلم کے خاتمہ کے نام پر ظلم وبربریت جاری ہے اس لیے ان اداروں سے خیر کی امید نہیں رکھی جاسکتی ہے، لہٰذا! امت مسلمہ کے حکمرانوں کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اجتماعی اور ملّی نقطہ نظر کا خوگر ہونا چاہئے ۔واضح رہے یہ بربریت یہیں ختم نہیں ہونے والی مسلم حکمرانوں کے لئے ابھی بھی موقعہ ہے ؎
بھنور آنے کو ہے اے اہل کشتی ناخداچن لیں
چٹانوں سے جو ٹکر لے وہ ساحل آشنا چن لیں
اگر شمس وقمر کی روشنی پر کچھ اجارہ ہے
کسی بیدار ماتھے سے کوئی تارضیاء چن لیں
آخری بات: ڈونلڈٹرمپ نے تمام بین الاقوامی اور سفارتی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ القدس میں اپنا سفارتخانہ منتقل کردیں گے، واضح رہے کہ یہ اعلان یہود کی تباہی اور موت وذلت کا پیغام لائے گا۔ چونکہ یہود کی اپنی کتابوں میں یہ واضح لکھا ہے کہ ان کے کرتوتوں کی بنا پر انہیں اس مقدس خطہ ارضی سے نکال دیاگیا ہے ،اس لئے یہود کے واپس آنے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ نبی آخر الزماں ؐپر بصدق دل ایمان لئے آئیں۔ اگر وہ ایمان لائے بغیر زبردستی یہاں آئیں گے تو انہیں ہولناک انجام سے دوچارہونا پڑے گا۔ اس لئے مسجد اقصیٰ کی حفاظت صرف فلسطینی مسلمانوں کی ذمہ دار ی نہیں ہے بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ پوری ملت اسلامیہ باہوش افراد قوم کی رہنمائی کی روشنی میں اپنے اپنے ممالک کے قوانین کے دائرے میں رہ کر صدائے احتجاج بلند کریں ۔یہ اس وقت مذہبی فریضہ بھی ہے اور غیرت ایمانی کا تقاضہ بھی اور ہمارے دشمن کی تباہی وبربادی اور ہماری نجات کا ضامن بھی ہے ۔خدائے قدوس پوری امت مسلمہ کی جان مال عزت آبرو اور ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔
رابطہ نمبر 7298788620
E-mail.- [email protected]
پونچھ(جموں وکشمیر)