جہاں ایک طرف نئی دلی نے دنیشور شرما کو مذاکرات کار مقرر کرکے گیند کشمیریوں کے کورٹ میں ڈال دی وہاں عجیب بات یہ ہے کہ مین اسٹریم اور مزاحمتی سیاست کے بڑے کھلاڑی ایک دوسرے کے ساتھ بری طرح الجھ گئے ہیں۔ ایک صحت مند سماج میں نہ صرف ہر گروہ بلکہ ہر فرد کو سوال کرنے کا پورا حق حاصل ہے بلکہ جس سماج میں تعمیری تنقید کا فقدان ہو اور مختلف موضوعات کو لیکر بھی بحث و مباحثہ نہ ہو وہ ایک بے جاں یا زندہ لاش کی طرح کچھ بھی کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے ۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ غیر ضروری بحث و مباحثہ سے ہر حال میں بچا جائے اور جب پوری قوم اپنے وجود اور بقاء کو منوانے میں بری طرح ناکام رہی ہو اور اس کے حریف اس سے کسی بھی سطح پر خاطر میں لانے کیلئے تیار نہ ہو ںتو لازمی ہے کہ ہر بحث سوچ سمجھ کر شروع کی جائے اور اس کے معنیٰ اور مثبت اثرات کو سمجھنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ معمولی غلط فہمیاں ایسی ناپسندیدہ صورتحال پیدا کر سکتی ہیں جن کے تلخ ثمرات سے بچنا اکثر اوقات مشکل ہو جاتا ہے ۔ اسی تناظر میں اگر گیلانی صاحب اور عمر صاحب سے لیکر فاروق صاحب اور دیگر مزاحمتی لیڈروں کے درمیان جاری لفاظی جنگ کو دیکھا جائے تو صاف عیاں ہے کہ فریقین قوی مفاد سے ذاتی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے سوا ہر کسی کو غلط ثابت کرنے کی تباہ کن دوڑ میں مصروف ہیں ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم شاہ خاقان عباسی کی طرف سے خود مختار کشمیر کے قیام کو مسترد کرنے کو لیکر کشمیری قیادت آپس میں ایسے لڑنے نکلی ہے جیسے کہ ہندوستان نے پورے جموں کشمیرکے اپنے والے علاقے سے ساری فوج نکال لی ہے اور اب یہاں کی سیاسی قیادت اور دیگر لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر یہ کہہ رہا ہے کہ اب آپ خود ہی یہ فیصلہ کر لو کہ کیا آپ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہو یا آزاد جموں کشمیر کا قیام چاہتے ہیں۔ ہر ذرہ بھر بھی سوجھ بوجھ رکھنے والے کشمیری کو اس بات سے افسوس ہی ہوگا کہ کس طرح مختلف سیاسی نظریا ت کے حامی لوگ ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے میں مشغول ہیں ۔ ہماری طرف سے کسی کو غداری یا وفاداری کی سند دینے سے کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں ہے کیونکہ تاریخ کے اوراق میں مرحوم شیخ صاحب سے لیکر گیلانی صاحب کا کشمیر مسئلہ کے حوالے سے مختلف مراحل پر ادا کیا جانے والا رول ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو چکا ہے اور تاریخ نہ ہی کسی کی دھمکیوں سے مرغوب ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کو سادہ لوح کہہ کر اس کی غلطیوں کو نظر انداز کرتی ہے۔ عمر عبداللہ صاحب چاہئے مرحوم شیخ صاحب یا فاروق صاحب کی یا اپنی دانستہ غلطیوں پر لاکھ پردہ ڈالیں وہ حقیقت کو بدل نہیں سکتے ۔ شیخ صاحب کی اچھے کاموں کیلئے کریڈٹ لینے کا عمر صاحب او ر ان کی جماعت کو بھر پور حق حاصل ہے لیکن عمر صاحب کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ کشمیر کی تاریخ کا ہر باب تب تک نا مکمل ہی رہے گا جب تک نہ اس میں مرحوم شیخ صاحب کے رول کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ لہذا ان پر اگر لوگ خلوص کی بنیاد پر تنقید کریں تو کسی کا ناک چڑھانا بالکل جائز نہیں ۔ اگر عمر صاحب حریت لیڈران خاص طور سے گیلانی صاحب کیلئے یہ ہدایت نامہ جاری کریں کہ وہ شاھد خاقان عباسی کی طرف سے خود مختار کشمیر کے نظریہ کو مسترد کرنے کیلئے ان کی مذمت کریں تو انہیں پہلے خود مندر جہ ذیل اہم سوالوں کا جواب دینا ہوگا:
1 کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ عمر صاحب خود مختار کشمیر کے نظریہ کے حامی بن گئے ہیں ؟
2 اگر ایسا ہے تو کیا پھر شیخ صاحب نے پوری عمر رائے شماری کا نعرہ لگا کر آزادی کے نعرے کو کمزور نہیں کیا؟
3 اگر رائے شماری کی تحریک صحیح تھی تو پھر عمر عبداللہ پاکستانی وزیر اعظم کے بیان کی مذمت کرکے شیخ صاحب کو غلط تو ثابت نہیں کر رہے ہیں؟
4 اگر شیخ صاحب کی تحریک صحیح تھی تو کیا 1975میں اس سے ترک کرکے انہوں نے وشواس گھات نہیں کیا؟
5 اگر عمر صاحب چاہتے ہیں کہ گیلانی صاحب اور ہر کشمیری پاکستانی وزیر اعظم کے خود مختار کشمیر کے نظریہ کو مسترد کرنے کی بنیاد پر اُن کی مذمت کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنے والد محترم فاروق صاحب کے بیان پر وہ کیوں شور نہیں مچاتے ہیں جو کہ شاہد عباسی کے بیان کی مکمل نقل ہے کیونکہ فاروق صاحب کا یہ فرمانا کہ آزادی کا تصور نا ممکن ہے پاکستانی وزیر اعظم کے بیان سے مکمل میل کھاتا ہے ۔
صاف ظاہر ہے کہ عمر صاحب کی گیلانی صاحب پر تنقید بلا وجہ اور غیر ضروری ہے ۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جہاں فاروق صاحب آزادی کے نظرئیہ کی صرف اس لئے مخالفت کرتے ہیں تاکہ اٹانومی کا نعرہ لگا کہ کشمیریوں میں انتشار کو ہوا دی جائے اور کشمیر مسئلہ کی حیثیت کو کمزور بنا دیا جائے وہاں شاہد عباسی کا دو قومی نظریہ کو رد کرنا دراصل کشمیر تنازعہ کو لیکر انتشار ی کیفیت سے بچنا ہے اور ساتھ ہی پاکستان کے دیرینہ موقف یعنی رائے شماری کے ذریعہ کشمیر مسئلہ کے حل کو استحکام بخشنا ہے ۔ ہر کوئی یہ بات جانتا ہے کہ یہ صرف اور صرف اقوام متحدہ کی قرار داد وں کی وجہ سے ممکن ہے کہ جموں کشمیر کے تنازعہ کے حل کی بات کی جا رہی ہے ۔ ان قراردادوں سے ہٹ کر بات کی جائے تو جموں کشمیر تنازعہ کا سرے سے ہی وجود مٹ جاتا ہے ۔ یہ بات بھی سمجھنے کے قابل ہے کہ اگر نئی دلی جموں کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے کی رٹ سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہے تو بھلا عمر صاحب یا کوئی اور یہ سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ پھر پاکستان کیوں اپنے روایتی موقف میں نرمی لا کر خود مختار کشمیر کے قیام کی حمایت کرے گا ۔ اس ساری صورتحال کے درمیان جہاں ایک طرف ہند و پاک اپنے اپنے موقف پر ثابت قدم ہیں وہاں بد قسمت کشمیریوں کی خود غرض قیادت باہم اس طرح دست و گریباں ہے کہ ان کے بد ترین دشمنوں کو بھی ان کی انا، خودغرضی، بےحسی اور کم عقلی پر افسوس ہوتا ہوگا ۔ ایک طرف جہاں عمر صاحب اور ان کے والد محترم کے علاوہ این سی کے دیگر لیڈران نے پورے لائو لشکر کے ساتھ گیلانی صاحب سمیت پوری مزاحمتی قیادت پر ہلہ بول دیا ہے وہاں حریت کی قیادت پر بھی لازم ہے کہ عمر عبداللہ کی ہر بات کو غدار اور تحریک دشمن یا پاکستانی ایجنٹ کہہ کر چند اہم سوالات کے جواب دینے سے بچنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر گیلانی صاحب یا کوئی اور مرحوم شیخ صاحب پر تنقید کرنے کیلئے آزاد ہیں تو قدرتی بات ہے کہ گیلانی صاحب کی سیاسی زندگی پر مختلف سوالات کا جواب ڈھونڈ نا بھی ضروری ہے۔ جہاں 1989سے اب تک گیلانی صاحب کی کشمیر مسئلہ کے تئیں انتھک کائوشوں سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا وہاں یہ حقیقت بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو کے رہ گئی ہے کہ انہوں نے خود اسی انتخابی عمل میں کئی بار حصہ لیا جس کو لیکر وہ آج دوسروں کو ھدف تنقید بنا رہے ہیں ۔ انہیں واقعی ایک بڑے لیڈر کی طرح یا تو ماضی کی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا یا پھر کم از کم صرف اسی ایک نقطہ کو بنیاد بنا کر ہر کسی کو تحریک مزاحمت سے دور کرنے کی دانستہ اور نادانستہ کوششوں سے بچنا ہوگا ۔ صرف انتخابات میں شرکت یا عدم شرکت کو کشمیر مسئلہ کے حل کے لئے وکیل بننے سے جوڑنا انصاف کے تقاضوں کے عین منافی ہے۔ تاہم عمر صاحب کا یہ فرمانا کہ جب شیخ صاحب رائے شماری کی تحریک چلا رہے تھے تو گیلانی صاحب تب الیکشن میں حصہ لے رہے تھے اگر چہ سو فی صدی درست واقعہ ہے لیکن اس نقطہ کو جواز بنا کر عمر صاحب رائے شماری کی تحریک کو دفن کرنے کیلئے جواز کے طور استعمال نہیں کر سکتے ۔ وجہ ظاہر ہے کہ شیخ صاحب تب پوری ریاست کے سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے تھے اور گیلانی صاحب کو عوامی حلقوں میں بہت ہی کم مقبولیت حاصل تھی۔ اس لئے گیلانی صاحب کا محاذ رائے شماری کا ساتھ دینا یا نہ دینا کوئی خاص معنیٰ نہیں رکھتا تھا۔ گیلانی صاحب سے انتخابات میں شرکت کرنے کے پیچھے وجوہات جاننے کا عمر صاحب یا کسی اور کو بھر پور حق حاصل ہے لیکن رائے شماری کی تحریک سے دغا بازی کرنے کے پیچھے شیخ صاحب کی ذات خود ہی ذمہ دار تھی اور کشمیر یوں کے موجودہ تمام مصائب کی شروعات دراصل مرحوم کی طرف سے رائے شماری کی تحریک کو الوداع کرنے سے ہی ہوتی ہے ۔ بہر حال دونوں گیلانی صاحب اور عمر عبداللہ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ لوگوں نے مختلف موقعوں پر مختلف طریقوں سے ان کا بھر پور ساتھ دیا ہے لہذا خلوص کی بنیاد پر انہیں ہر تعمیری تنقید کیلئے ہر بار تیار رہنا چاہئے ۔ قوم کی بقا ء افراد کی اہمیت سے ہمیشہ اوپر ہوتی ہے اور لیڈر وں کی معمولی غلطی بھی قوم کا بیڑا غرق کرنے کا باعث بن جاتی ہے ۔ ایسے میں لازم ہے کہ جہاں لیڈران اپنے گریباں میں جھانکنے کی زحمت گوارہ کریں وہاں عوام کو بھی جذباتی سوچ کے بجائے نہ صرف ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا بلکہ اپنی ڈوبی ہوئی کشتی کو کنارے لگانے کے لئے انقلابی تبدیلیوں کیلئے اجتماعی طور سے تیار رہنا ہوگا۔